Please Wait
5640
وه جواب میں کهتے هیں، چونکه هم فارسى یا عربى نهیں جانتے هیں اور درس خارج میںشرکت نهیں کى هے، پس هم حق نهیں رکھتے هیں که کسى حدیث کو ذکر کریں اور تجزیه و تحلیل کریں اور هم صرف ان کے پاس جاکر ان کے ماهرین سے عنوان سے استفاده کرسکتے هیں ـ کیا یه عادلانه هے؟
کیا اسلام اور خدا وند متعال کسى کو واضح چیزیں سمجھنے اور ان پر فکر کرنے کى طاقت اور اجازت نهیں دیتا هے ؟
اس قسم کے علماء لوگوں کو اسلام سے دور اور متنفر کرتے هیں نه یه که لوگوں کو اسلام کى طرف (دوستى اور افهام و تفهیم سے) جذب کریں؟
اسلام کے احکام اور معارف کو پهچاننے، سیکھنے اور ا ن کى گهرائى کے لحاظ سے مختلف درجے اور مراتب هیں:
الف: سطحى اور ابتدائى پهچان : جیسے: احکام و آداب اور عملى، اخلاقى اور اعتقادى دستورات حاصل کرنا ـ
ب: استدلالى پهچان: فقهى اور عملى، اخلاقى اور اعتقادى احکام کے دلائل کو یاد کرنے کے مانند ـ
ج: عملى، اخلاقى اور اعتقادى احکام کے فلسفه و حکمت کى پهچان ـ
پهلے مرحله (ابتدائى پهچان) میں یاد کرنا اور سوال کرنا هر فرد کا فریضه هے اور ان کے بارے میں جواب دینا علماء کے لئے بھى ضرورى هے ـ لیکن دوسرے اور تیسرے مرحلے میں سیکھنے کے سلسله میں علمى و فنى اور ضرورى وسائل اور مهارتوں کو حاصل کئے بغیر مطلوب نتیجه نهیں نکل سکتا هے اور ممکن هے بعض لوگوں کے مطابق وقت ضائع کرنا شمار هو جائے ـ مثال کے طور پر علم طب کے خصوصى مسائل کے بارے میں معلومات نه رکھنے والے افراد کسى طبیب کو مجبور کریں که فلاں بیمارى کے دلائل بیان کرے، قدرتى بات هے که ایسى حالت میں طبیب اور سوال کرنے والے کا وقت ضائع هوگا ـ
فقهى اور اجتهادى علوم کى مهارتوں کے بارے میں آشنائى حاصل کرنے کے لئے سوال نمبر 1077 (سائٹ: ) تحت عنوان " مبانى صدور فتوىٰ و ادله آن " سوال نمبر 66 (سائٹ: ) تحت عنوان "قرآن و اجتهاد "، سوال نمبر 3994 (سائٹ: 4293) تحت عنوان " بعض مشترک مسائل میں بعض مجتهدین کا اختلاف نظر " کى طرف رجوع کیا جا سکتا هے ـ
لیکن علمائے دین کى همیشه یه کوشش رهى هے که کتاب شائع کرکے اور سوال و جواب کے جلسات منعقد کرکے، مخاطبین کے معلومات کى سطح کو تقویت بخشیں اور مذکوره دو ابواب میں اخلاق اسلامى اور خنده پیشانى سے سوالات کا جواب دیں
همارى اس بات کے گواه انٹرنیٹ کى متعدد سایٹیں هیں جو اس موضوع سے مربوط هر قسم کے سوالات کا جواب دینے کے لئے تشکیل پائى هیں ـ