Please Wait
6961
اخلاق کے معنی وه صفتیں هیں جو انسان کے نفس میں "ملکه" کی صورت میں پیدا هوتی هیں اور ملکه اس صفت کو کها جاتا هے، جو انسان کی روح و جان میں اس طرح نفوذ پیدا کر کے راسخ هوتی هے که اس صفت کے ساتھه مناسب افعال و آثار اور کردار، خودبخود رکے بغیر انسان سے صادر هوتے هیں- اخلاق کی دو قسمیں هیں: "فضیلت" اور "رذالت"- لیکن، توکل، جو اخلاقی فضائل میں سے ایک هے، بنده کا خدا پر اعتماد کرنے اور اپنے تمام کام اسی کے سپرد کرنے کے معنی میں هے- لیکن خداوندمتعال پر حقیقی توکل ، توسل کے اسباب کے لیے رکاوٹ نهیں بن سکتا هے،چونکه خداوندمتعال نے فرمایا هے که اسباب سے هم سے مدد لیں لیکن توکل کے ذریعه- پس اخلاق کا توکل سے رابطه ، اس میں هے که توکل فضائل اخلاقی کے مصادیق میں سے هے-
لغت میں اخلاق :
اخلاق، "خُلُق" اور "خُلق " کی جمع هے- یه دونوں لفظ ایک ایسی صفت کے معنی میں هیں که یه صفت انسان کے نفس میں " ملکه" کی صورت پیدا هوتی هے اور ملکه اس صفت کو کها جاتا هے، جو انسان کی روح و جان میں نفوذ پیدا کر کے اس طرح راسخ هوتی هے که اس صفت کے ساتھه مناسب افعال و آثار اور کردار خودبخود اور رکے بغیر انسان سے صادر هوتے هیں- مثال کے طور پر جب کسی شخص میں تواضع اور انکساری کی صفت ملکه کی حد تک پهنچ جاتی هے، تو وه مناسب جگه پر خودبخود اور آٹومیٹک طور پر تواضح کا مظاهره کرتا هے-
خلق، ممکن هے مثبت هو، تو اسے "فضیلت" کهتے هیں اور ممکن هے منفی هو تو اسے "رذالت" کهتے هیں-
اس بنا پر، اخلاق، تمام پسندیده صفات {فضائل} اور ناپسندیده صفات {رذائل} کے معنی میں هے، جو انسان میں ملکه کی صورت میں پیدا هوتے هیں [1] -
قابل توجه بات هے که خلق و اخلاق، نفسانی هیت اور حالت کے مقولے هیں، نه عمل و رفتار کے مقولے، کیونکه اخلاق انسان کی وه اندرونی حالت و قدرت هے، جس سے خوب و بد رفتار پیدا هوتی هے اور رفتاریں اخلاق کی پیداوار هیں نه بذات خود اخلاق، اسی وجه سے اگر کسی شخص میں سخاوت کا ملکه موجود هو، لیکن، فقر اور دوسری رکاوٹوں کی وجه سے، بخشش کرنے کی قدرت نه رکھتا هو، تو بھی اسے سخی کها جاتا هے، اسی طرح جو افراد بذل و بخشش کا جذبه نهیں رکھتے هیں لیکن ریاکاری اور دکھاوے کے لیے کوئی مال بخش دیتے هیں، انهیں سخی نهیں کها جاتا هے-
بنیادی طور پر ان اچھی یا بری حالتوں کو خلق نهیں کهتے هیں، جن کی وجه سے اتفاقی طور پر کوئی فعل صادر هوتا هے، بلکه خلق اس حالت کو کهتے هیں جو روح میں نفوذ کر چکی هو اور انسان کی ثابت اور دائمی حالت اور عادت بن چکی هو [2] -
توکل کی تعریف :
اسلامی اخلاق میں ایک عام مفهوم، جو ایک نفسانی صفت اور انسان اور خدا کے درمیان خاص رابطه بیان کرتا هے، وه "توکل" کا مفهوم هے- توکل، سالکین الهٰی کی ایک منزل اور موحدین کا ایک مقام اور اهل یقین کا بلند ترین درجه هے [3] -
توکل، یعنی، بنده کا اپنے جمیع امور میں خدا کا دلی اعتماد و اطمینان ، اور اپنے تمام کام اسے حواله کرنا اور خدا کی طاقت پر بھروسه کرنا هے [4] -
پیغمبراسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا هے: " میں نے جبرئیل {ع} سے پوچھا: توکل کیا هے؟ جواب دیا : اس حقیقت کی آگاهی ،که مخلوقات نفع و نقصان نهیں پهنچا سکتے هیں، اور یه که لوگوں کی مدد اور سرمایه سے امید نه رکھی جائے، جب بنده ایسا بن جائے تو وه خدا کے علاوه کسی کے لیے کام نهیں کرتا هے اور اس کے علاوه کسی کی امید نهیں رکھتا هے اور یه سب حقائق اور توکل کی سرحدیں هیں [5] -"
یه قابل قدر صفت اس وقت حاصل هوتی هے، جب انسان عالم هستی میں انجام پانے والے تمام کاموں کو، پروردگار کی طرف سے جان لے اور کسی طاقت کو خداوندمتعال کے علاوه موثر نه جانے اور اعتقاد رکھتا هو که خدا کے توسط کے علاوه کسی میں طاقت نهیں هے- اگر کسی میں حقیقی معنوں میں ایسا اعتقاد پایا جائے، تو وه دل میں خدا کا اعتماد پیدا کر کے اس پر بھروسه کرتا هے [6] -
البته یه توکل کا بلند ترین مرتبه هے، لیکن توکل کے کچھه اور مراتب هیں، جو حسب ذیل هیں:
الف۔ توکل کے ضعیف ترین درجات یه هیں که انسان کا خدا پر اعتماد، اپنے دعوٰی میں وکیل پر اعتماد کے مانند هو- اس مرتبه میں مسئله حل هونا مدنظر هوتا هے-
ب۔ متوسط حالت: خدا کے علاوه کسی کو نهیں پهچانتا هے، اور اس کے علاوه کسی کے هاں پناه نهیں لیتا هے، طفل کی اپنی ماں سے وابستگی کے مانند، اور یه مرتبه توکل کا متوسط مرتبه هے-
ج۔ توکل کا عالی ترین مرتبه وه حالت هے که انسان خود کو سو فیصدی خدا سے وابسته جان لے، مرده کے غسال کے اختیار میں هونے کے مانند [7] -
قابل توجه نکته یه هے که خدا پر توکل ، اسباب سے توسل کرنے کے منافی اور رکاوٹ نهیں هے، کیونکه عالم فطرت، عالم اسباب و مسببات هے، هربود و نبود اپنے فطری وجود و عدم کے پیچھے هے لیکن یه سب علتیں، اپنی ابتدائی علت و مبدا کی طرف پلٹتی هیں اور یه سب علل و اسباب خداوندمتعال کے حکم اور اس کے اراده سے اپنا فریضه انجام دیتے هیں-
توحید کی بحث میں ، توحید کی ایک قسم، افعال میں توحید هے، اس کے یه معنی هیں که موحد انسان اس چیز کا معتقد هو که تمام هستی میں صرف ایک موجود موثر اور مستقل هے جس کا نام خدا هے اور دوسرے اثرات و اسباب و علل اسی سے متعلق هیں-
خدا پر توکل اور غیبی طاقت سے مدد مانگنا، افعال میں توحید کی ایک قسم هے، که توکل کرنے والا، هر مکان و مقام پر حقیقی موثر خداوندمتعال کو جانتا هے-
بهت سی آیات و روایات میں ایک پسندیده خصوصیت کے عنوان سے ، توکل بیان کیا گیا هے که هم ذیل میں اس کے چند نمونوں کی طرف اشاره کرتے هیں:
" اگر ایمان رکھتے هو تو ، خدا پر توکل کرنا [8] " " خدا، توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا هے [9] -"
" جو بھی خدا پر توکل کرتا هے، خدا اسے کفایت بخشتا هے [10] -"
امام باقر علیه السلام نے فرمایا هے: " جو شخص خدا پر توکل کرے، وه مغلوب نهیں هوگا اور جو بھی خدا سے پناه چاهئے، وه ناکامی سے دوچار نهیں هوتا هے [11] -"
حضرت علی علیه السلام نے فرمایا هے: " خداوندمتعال پر توکل کرنا، هر بدی سے نجات اور هر دشمن سے محفوظ رهنے کا سبب هے [12] -"
مذکوره بیان سے واضح هوتا هے که "توکل" ایک اخلاقی فضیلت اور اس کی مصداق هے اور یهی اخلاق و توکل کے درمیان رابطه هے-
[1] . محسن غرویان ، فلسفه اخلاق از دیدگاه اسلام ، ص 11 ، مؤسسه فرهنگی یمین ، طبع دوم ، 1380 شمسی .
[2] . مهدی نیلی پور ، بهشت اخلاق ، ج1 ، ص 28 ، انتشارات مؤسسه تحقیقاتی حضرت ولی عصر ، چاپخانه شریعت ، قم ، 1385 .
[3] . مهدی نیلی پور ، بهشت اخلاق ، ج1 ، ص 28 ، انتشارات مؤسسه تحقیقاتی حضرت ولی عصر ، چاپخانه شریعت ، قم ، 1385 ، ج2 ، ص 701 .
[4] . ملا احمد نراقی ، معراج السعاده ، ص 758 ، انتشارات هجرت ، طبع هشتم ، قم ، 1381 شمسی .
[5] . ملاخطه هو عنوان نمبر 99 (سایٹ: 2385)، جواب اجمالی.
[6] . ملا احمد نراقی ، معراج السعاده ، ص 758 ، انتشارات هجرت ، طبع هشتم ، قم ، 1381 شمسی .
[7] . ملا احمد نراقی ، معراج السعاده ، ص 758 ، انتشارات هجرت ، طبع هشتم ، قم ، 1381 شمسی 3 ، ص 764 و 765 .
[8] . مائده ، 23 . وَ عَلىَ اللَّهِ فَتَوَکلَُّواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ
[9] . آل عمران ، 159 ، إِنَّ اللَّهَ یحُِبُّ الْمُتَوَکلِِّین
[10] . طلاق ، 3 ، وَ مَن یَتَوَکلَْ عَلىَ اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
[11] . میرزا حسین نوری ، مستدرک الوسائل ، ج2 ، ص 288 ، مؤسسه آل البیت لاحیاء التراث ، طبع اول ، 1408 قمری.
[12] . منتخب میزان الحکمه ، گردآورنده : سید حمید حسینی ، باب توکل ، مؤسسه علمی و فرهنگی دارالحدیث ، 1385 شمسی .