Please Wait
10338
حق یعنی: راسته کے درمیان میں چلنا ،صحیح راسته انتخاب کرنا،حکمت کے بنا پر کسی چیز کو قرار دینا۔ حق و حقیقت کی پیروی فکر و نظر کے میداں میں یعنی :زیور منطق و جامه یقین سے آراسته هونا۔ مغالطه خیال پروری اور شخصیت پرستی سے پرهیز کرنا، اور حق کی پیروی عمل کے میدان میں یعنی :نفس کا محاسبه ،بندگی ،خوف خدا، موت اور قیامت کی یاد، حق کے راسته کو اپنانا ،اس پرچلنا اور باقی رهنا،یقینا جب حق انسان پر آشکار هوجا تا هے تو اھل حق ،حق و حقیقت کے ساﺗﻬ اور اس کے پیروکا رهتے هیں(جو اسے نظر آنے لگتے هیں)
سب سے پهلے حق اور حقیقت کو پهچانناچاهئے تا که بعد میں اپنےکو زیور حق سے آراسته کر کے اهل حق و حقیقت بن سکیں۔معصومین علیهم السلام کے روایتوں میں وارد هوا هے کے :حق سنگین لیکن خوشگوار هے ،اور باطل هلکا لیکن مهلک هے۔[1] حق کهو چاهے تمهارے نقصان کیوں نه هو[2] اور حق کی پیروی میں صبرو تحمل سے کام لو چاهے کتنا هی تلخ کیوں نه هو۔[3]
اس نقطه نظر سے اجمالی طور پر یه معلوم هوا که حق کی پیروی دشوار هے گر چه انسان کا کمال اسی میں هے ۔اور حق کو چھوڑنا اور باطل په چلنا بهت آسان هے لیکن انسان کو تباه کردیتا هے مثال کے طور پر حق کی پیروی پهاڑ پر چڑھنے جیسا کام هے جو مشکل ضرور هے لیکن اس کا نتیجه نهایت شیرین نیز خوشی اور مسرت سے بھی پور هے
حق کا لغوی معنی:
حق یعنی: قطعی ،یقین،ایک ثابت وجود ،عدل۔ اور حقیقت یعنی: سچائی اور درستی ۔حق الفرس یعنی که گھوڑا دوڑتے وقت اپنے پچھلے پیر کو اپنے اگلے پیر کی جگه رﮐﮭ رها هے ۔ اور محقق کے کلام میں حق یعنی محکم ،یقینی اور منظم بات هے،[4] حق الطّریق یعنی :راسته کے درمیانی حصه پر چلنا؛محقّ یعنی صحیح بات کرنے والا اور صحیح نظر رکھنے والا۔اور "حاق" یعنی کسی چیز کا درمیانی حصه۔[5]
حق یعنی چیز کا حکمت کے مطابق قرار پانا اوریه صرف نیک اور اچھے امور میں استعمال هوتا هے ۔[6]
روایتوں سے پتا چلتا هے که راسته کے درمیان میں چلنا ،سچائی اور درستی کی پیروی کرنا اور کسی چیز کو حکمت کے مطابق قرار دینا۔حق کهلاتا هے۔حضرت علی علیه السلام فرماتے هیں:حق کی پیروی حکمت کی بنیاد هے[7]۔ آپ هی سے یه روایت بھی هے ،صحیح اور قطعی دلائل کوتلاش کرو۔خود کو برهان منطق سے آراسته کرو، اور شبهه اور مغالطوں سے پرهیز کرو[8] امام علی علیه السلام اس حدیث میں ،حقائق تک پهنچنے کے لیئے ایک علمی روش کو اپنا نے کی تاکید فرمارهے هیں اور وه استدلال اور برھان کی روش هے جس میں کسے بات پر لوگوں کے اتفاق اور اجماع یا علماء میں کسی مسئله کی شهرت کی کوئی حیثیت نهیں هے۔
پس حقیقت ،حقیقت هے چاهے لوگ اسے مانیں یا اس کے منکر هوں ۔اس سلسله میں نهایت لطیف بیان حضرت امام موسی بن جعفر علیه السلام کا ارشاد هے که اے ھشام اگر تمهارے هاﺘﮭ میں آخروٹ هو اور لوگ اسے قیمتی گوھر سمجھیں ،تو تمهیں اس کا هرگز کوئی فایده نهیں پهنچے گا۔ کیوں که تمهیں پته هے که تمهارے هاﺘﻬ میں قیمتی گوھر هو اور لوگ اسے بے قیمت آخروٹ سمجھیں توتمهیں کوئی نقصان نهیں هوگا کیون که تمهیں معلوم هے که تمهارے پاس بیش بها گوھر هے[9]۔ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا هے : قیامت کے دن حق کے ترازو په توجائے گا[10] پس اگر تم اورتمهارا عمل حق سے بهره مند هوں گے تو وزنی هوں گے اگر حق سے بهره مند نه هوں گے اور جن کا پلّه هلکا هوگا وه عذاب کے اھل هوں گے ،لهذا خود کو تیار کرو اور پرکھو کے تمهارا عمل حق کے راسته پر هے یا نهیں !؟ حق کے لیئے هے یا نهیں ؟! حق سے ابتداء هوتی هے یا نهیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟!۔
امام علی علیه السلام مزید فرماتے هیں : اس سے پهلے که قیامت آئے اور تمهارا حساب لیا جائے تم خود اپنا حساب لو[11] دیکھو کیا خریدا کیا بیچا؟ دیکھو اس خریدو فروخت میں فائده هوا یا نقصان ؟!
نیز حضرت علیه السلام سے نقل هے :ﻤﺟﮭ میں اور عمر و عاص میں فرق یه هے که موت کی یاد مجھے باطل نهیں کهنے دیتی اور آخرت کی فراموشی اسے احمق بات کهنے نهیں دیتی ۔وه چونکه آخرت کو بھول گیا لهذا حق بات نهیں کهتا اور میں چونکه موت ﻤﺟﮭﮯ همیشه یاد رهتی هے لهذا میں بازیچوں میں مشغول نهیں هوتا۔[12]
نتیجه ی کے حق و حق پرستی در اصل حق کی پیروی فکرو نظر کے میدان میں زیور منطق اور جامه یقین سے آراسته هونا،نیز مغالطوں ،خیال تروشیوں اور حق پرستی کے مقابلے میں شخصیت پرستیوں سے پرهیز کرنا هے ۔اور حق کی پیروی عمل کے میدان میں نفس کے محاسبه ،بندگی ،خوف خدا ،موت اور قیامت کی یاد ، حق کی تلاش اور اس پر باقی رهنے کو کهتے هیںظاهر بات هے جب حق انسان پر روشنی هوجاتا هے تو اھل حق،حق و حقیقت کے ساﺗﻬ اور اس کے پیروکار رهتے هیں حضرت امیر المومنین علی علیه السلام کے فرمان کے مطابق : حق کو پهچان لو ،اھل حق خود ﺴﻤﺠﻬ میں آجائیں گے۔[13]
مزید مطالعه کے لیئے:
الف:جوادی آمل ،عبد الله؛حکمت نظری عملی در نھج البلاغه؛جلد اول بحث سوم
ب:حسینی طهرانی ،محمد حسین؛نور ملکوت قرآن؛جلد اور بحث سوم
ج: جوادی آمل ،عبد الله؛حیات عارفانه امام علی علیه السلام؛ فصل پنجم
د: نھج البلاغه؛خطبے:214۔ 141۔ 216۔ 220 ۔ 9۔ 157 ۔ 201۔ 91 ۔ ۔ ۔ ۔
ه: نھج البلاغه ؛خطوط:15 ۔ 17 ۔ 79 ۔ 53 ۔
[1] امام علی علیه السلام،نھج البلاغه ، حکمت 376.
[2] مجلسی محمد باقر،بحار الانوار،2/157/74.
[3] مجلسی محمد باقر،بحار الانوار، 52/184/70.
[4] بندر ریگی محمد ،ترجمه فرھنگ منجد الطلاب.
[5] سیّاح احمد ،فرھنگ جامع.
[6] عسکری ابو ھلال ،الفروق فی الغۃ.
[7] آمدی عبد الواحد، غرر الحکم و دررالحکم.
[8] آمدی عبد الواحد، غرر الحکم و دررالحکم.
[9] الحرّانی حسن،تحف العقول،کتابفروشی اسلامیه ،ص406۔ طباطبائی محمد حسین ،علی و فلسفه الهی ۔ص33۔
[10] سوره اعراف آیه 7۔
[11] نھج البلاغه ،خطبه 90۔ 89، بخش 8۔
[12] نھج البلاغه ،خطبه 83 ۔جوادی آملی عبد الله ،حکمت نظری ع علمی در نھج البلاغه ،صص 109 ۔ 144۔
[13] طبرسی فضل بن حسن ،مجمع البیان ۔211/1 ۔