Please Wait
7413
اسلامی نقطھ نظر سے کوئی بھی فیصله کر تے وقت، پهلا کام عقل اور انسان کی سوچ پر چھوڑا گیا ھے۔ جھاں ایک انفرادی عقل ، حکیمانه فیصلھ کرنے پر قادر نھیں وھاں " مشورت" عقل کو حقیقت تک پھنچنے اور اسے شفاف بنانے میں مدد کرتی ھے اسی طرح دوسروں کے تجربات اور اطلاعات کو عقل کے اختیار میں قرار دیتی ھے۔
اگر انسان سوچنے اور مشورت کے بعد بھی حیرت میں رھا ، تو عقل اور شرع اس حیرت کو دور کرنے کیلئے ایک اور مشورت کی طرف توجھ دلاتی ھیں ۔ وه خدا کے ساتھه مشورت ھے۔ اس خدا کے ساتھه جو مھربان اور آگاه ھے ، جو ھر ایک کی خیر اور صلاح چاھتا ھے اس طرح کی مشورت کو اسلامی ثقافت میں " استخاره " کا نام دیا جاتا ھے۔ یعنی خدا سے بھترین چاھنا اور طلب خیر کرنا۔
سوال کا جواب واضح ھونے کیلئے ، استخاره ، اور اسلام میں اس کی اھمیت کے بارے میں چند نکات کو بیان کرنا ضروری ھے۔
انسانی زندگی کے بارے میں کوئی بھی فیصلھ کرنے کیلئے اسلام نے سب سے پھلے باطنی حجت (عقل) پر تاکید کی ھے، اسلام کی نظر میں عقل ایک بھت بڑی نعمت ھے جو خدا نے انسان کو عطا کی ھے ، انسان عقل کے چراغ سے اپنے زندگی کے اندھیروں میں به آسانی گذر سکتا ھےاور زندگی کی مشکلات اور خطرے کی جگھوں سے محفوظ راستھ پا سکتا ھے۔ قرآن کریم میں عقل اور فکر سے کام لینے پر بھت تاکید کی گئی ھے۔
قرآن کی نظرمیں سب سے پَست موجودات وه ھیں جو عقل اور فکر کو کام میں نھیں لاتے[1] حضرت امام علی علیھ السلام کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کی سب سے بڑی دلیل ، انسان کی عقول کو شگوفا (روشن) کرنا ھے۔ [2]
عقل پر اعتماد کرنا اور اس روشن چراغ کو کام میں لانا حد درجھ اھمیت رکھتا ھے۔ اسے شریعت مقدس میں احکام کے استنباط کا ایک منبع جانا گیا ھے۔
اسی طرح دینی تعلیمات میں جو اسباب عقل پسند فیصلھ کرنے میں دخیل ھیں اور عقل کو حقیقت تک پھنچنے میں اور فکر کو شفاف کرنے میں مدد گار ثابت ھوتے ھیں ان پر بھت تاکید کی گئی ھے جن میں سب سے اھم " مشورت" ھے ۔ مشورت جو ایک اجتماعی فکر ھے ، بھت سے ایسے مشکلات کو حل کرتی ھے جنھیں ایک انفرادی عقل حل کرنے میں ناکام رھتی ھے۔ مشورت کے ذریعے عقل کے نقص کی بھت حد تک تلافی ھوجاتی ھے۔ اور بھت سے تجربات اور اطلاعات جو دوسرے لوگوں نے بھت مدت میں حاصل کئے ھیں آسانی سے انسان کے ھاتھه آجاتے ھیں۔
بھت بار ایسا ھوتا ھے کھ فکر اور مشورت کے بعد بھی انسان میں شک اور حیرت برقرار رھتی ھے یھاں پر شرع اور عقل یھ حکم دیتے ھیں کھ ایک اور مشورت کریں، وه بے نھایت عقل ، عالم خلقت اور مطلق عالم کی عقل ھے، وھی عقل جو بندوں کے نیک اور برے سے آگاه ھے اور ھر کسی ای خیر اور صلاح کو چاھتی ھے۔ اسلامی ثقافت میں اس "مشورت" کا نام " استخاره "ھے ، استخاره یعنی دو چیزوں میں بھترین کو چاھنا ، خیر طلب کرنا ، نیکی کی تلاش کرنا[3]ھے۔ اسی لئے استخاره کرنے والے شخص کی روحانی اور باطنی حالت جتنی بھتر ھو اتنا ھی استخاره پر اطمینان زیاده ھوگا۔ اور اس کے استخاره کی مخالفت بھی مشکل ھوتی ھے بلکھ نا ممکن ھوتی ھے۔
استخاره کے دو معنی ھیں:
۱۔ ایک استخاره کے حقیقی معنی ھیں جس کا روایات اور احادیث میں زیاده نام لیا گیا ھے۔ اور وه "خدا سے خیر طلب کرنے" کے معنی ھیں۔ اس طرح کا استخاره حقیقت میں دعا کی ایک قسم ھے اور وھی مطلق استخاره ھے۔ یھ شک اور تردید کے مواقع سے مخصوص نھیں۔ بلکھ خداوند متعال سے سب کاموں میں مدد طلب کرنا اور زندگی کے تمام مسائل کو اسی کے سپرد کرنے کوکھتے ھیں۔ حضرت امام صادق علیھ السلام فرماتے ھیں: خداوند متعال کا ارشاد ھے : میرے بندے کی بڑی بد بختی یھ ھے کھ وه اپنے کام کو مجھه سے استخاره کے بغیر (خیر طلب کرنے کے بغیر ) انجام دے۔ [4]
پس روایات کے مطابق یھ استخاره شک اور حیرت کو دور کرنے کیلئے نھیں ھے بلکھ ھر موقع پر ایک بھترین اور پسندیده کام ھے۔
استخاره کے دوسرے معنی حیرت ، شک اور تردید سے نکلنے کیلئے خدا سے خیرطلب کرنے کے ھیں۔ یھ شک اور تردید کے حالات سے مخصوص ھیں۔
ھماری دینی ثقافت میں استخاره کے دوسرے معنی کی اھمیت اور استخاره کے مواقع کے بارے میں تین نظریات موجود ھیں:
الف) پھلا نظریھ یھ ھے کھ ھر مسئلے میں کسی غور و فکر کے بغیر نتیجے کو صرف استخاره پر ڈال دیں اور استخاره کی جانب پناه لیں۔
ب) دوسرا نظریھ جو عقل پسند اور سرے سے ھی استخاره کا مخالف ھے۔
ج) تیسرا نظریھ جو عقل کے مقام کا اعتراف کرتے ھوئے ، مشورت کی اھمیت کو مد نظر رکھه کر استخاره کو اس طرح بیان کرتا ھے جو بعینھ عقل اور فکر کے مطابق ھے اس نظریھ کے مطابق استخاره کرنے میں کوئی بھی دینی رکاوٹ موجود نھیں ھے کیونکھ استخاره کے ذریعے صرف شک کے مواقع پر ایک طرح کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ھے ، اسی طرح استخاره نھ کسی حلال کو حرام اور نھ ھی غیر واجب کو واجب کرتا ھے۔ اور نھ ھی خدا کے احکام میں کسی حکم کو تبدیل کرتا ھے ۔ بلکھ صرف یھ بات بیان کرتا ھے کھ استخاره کرنے والے کی خیر کس کام کو انجام دینے میں اور کس کام کو ترک کرنے میں ھے اوراس طرح اسے شک کی حالت سے نجات دیتا ھے ۔ لیکن یھ بات کھ کام کے انجام یا ترک کرنے کا اثر آئنده کیا ھوگا اور کون سے واقعات رونما ھوں گے یھ بات استخاره کی حدود سےباھر ھے۔
بھت سی روایات میں استخاره کرنے کے طریقھ کو بیان کیا گیا ھے۔[5]
پس جھاں پر انسان کی سوچ اور ماھر افراد کے ساتھه مشورت، حیرت اور شک سے نھ نکالے وه استخاره کے ذریعے (یعنی خداوند متعال سے مشورت کرکے) فیصلھ کرسکتا ھے اور حیرت اور شک کی حالت سے باھر آسکتا ھے۔
لیکن کوئی کتاب کھولنا وغیره اگر وه خاص استخاره ھے تو اس کا حکم بیان ھوا ھے لیکن اگر کوئی اور چیز ھے تو اس پر کوئی دلیل موجود نھیں۔