Please Wait
5722
یہ سوال، بالکل کلی ہے، کیونکہ معاملہ کا لفظ فقہ و عرف میں متعدد معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے: معاملہ بہ معنای اعم، معاملہ بہ معنای اخص اور معاملہ بہ معنای درمیان اعم و اخص یعنی بہ معنای متوسط ۔ معاملہ بہ معنای اعم، یعنی وہ اعمال اور فرائض جن میں قصد قربت ضروری نہیں ہے، خواہ انشاء کی ضرورت ہو یا نہ ہو، مثال کے طور پر لباس اور بدن کو پاک کرنا، بیع، نکاح و طلاق۔ معاملہ بہ معنای اخص، یعنی وہ اعمال اور فرائض جن میں قصد قربت ضروری نہیں ہے، لیکن طرفین کے انشاء کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر نکاح۔ معاملہ بہ معنای درمیان اعم و اخص یعنی بمعنای متوسط، یعنی وہ اعمال و فرائض جن میں قصد قربت ضروری نہیں ہے، لیکن کم از کم ایک طرف سے انشاء کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر طلاق[1]۔
اسی طرح آج کل ایران میں معاشرہ کے عرف میں معاملہ خرید و فروخت {بیع} کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس بنا پر آپ کو مشخص کرنا چاہئیے کہ آپ کے لفظ معاملہ سے مراد کون سا معاملہ ہے تاکہ ہم آپ کے سوال کا صحیح جواب دیں سکیں۔
لیکن اگر آپ کی اس لفظ "معاملہ" سے مراد "بیع" {خرید و فروخت} ہے، تو قابل بیان ہے کہ بیع{معاملہ} کے عقد، جنس، خریدار اور فروخت کرنے والے کے سلسلہ میں متعدد شرائط ہیں، جن کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
عقد کے شرائط:
خرید و فروخت میں ضروری نہیں ہے کہ عقد کا صیغہ عربی میں پڑھا جائے، اگر بیچنے والا { فارسی یا} اردو میں کہے کہ: " میں نے اس مال کو اس رقم کے عوض میں بیچ دیا ہے" اور خریدار کہے: " میں نے قبول کیا" تو معاملہ صحیح ہے لیکن خریدار اور بیچنے والے کو قصد انشاء کرنا ضروری ہے، یعنی ان دو جملوں کے کہنے کا مقصد خرید و فروخت ہو[2]۔ اگر معاملہ کے وقت صیغہ نہ پڑھیں، لیکن بیچنے والا، خریدار سے عوض میں جو مال لیتا ہے، اپنے مال کو اس کی ملکیت قرار دے اور وہ لے لے تو معاملہ صحیح ہے اور دونوں مالک ہوتے ہیں[3]۔
جنس اور اس کے عوض شرائط:
۱۔ اس کی مقدار، وزن یا پیمانہ، یا تعداد وغیرہ کے مانند معلوم ہونی چاہئیے۔
۲۔ مال کو حوالہ کر سکیں، اس بنا پر ایک بھاگے ہوئے گھوڑے کو بیچنا صحیح نہیں ہے۔
۳۔ جنس اور اس کے عوض میں حاصل کیے جانے والے مال کی خصوصیات معین ہونی چاہئیے۔
۴۔ معاملہ جنس اور عوض میں کسی کا حق نہ ہو، اس بنا پر ، جس مال کو کسی نے گروی رکھا ہو، وہ اس کی اجازت کے بغیر اسے نہیں بیچ سکتا ہے۔
۵۔ یہ کہ احتیاط مستحب کے طور پر خود جنس کو بیچ دے نہ کہ اس کے منافع کو[4]۔
بیچنے اور خریدار کے شرائط:
۱۔ بالغ ہوں
۲۔ عاقل ہوں
۳۔ حاکم شرع نے ان کو اپنے مال میں تصرف کرنے کے بارے میں منع نہ کیا ہو۔
۴۔ خرید و فروخت کا قصد رکھتے ہوں، اگر مذاق میں کہیں کہ میں نے اپنے مال کو بیچ دیا، تو معاملہ باطل ہے۔
۵۔ کسی نے انہیں مجبور نہ کیا ہو۔
۶۔ جنس اور اس کے عوض میں دئے جانے والے مال کے مالک ہوں { یا نابالغ بچے کے باپ یا جد، کے ہاتھ میں مال کا اختیار ہو۔}[5]
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لیے ، عنوان: "بطلاق معاملہ بعلت عدم تحقق شروط و تسلیم ثمن و بیع" ، سوال:4831 {سائٹ: 5117} ملاحظہ ہو۔
[1] منية الطالب في حاشية المكاسب، ج1، ص: 33.
[2] توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج2، ص: 226، مسأله 2097.
[3] توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج2، مسأله 2098.
[4] توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج2، ص: 222، مسأله 2090.
[5]توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج2، ص: 216، مسأله 2081.