Please Wait
کا
10682
10682
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2015/09/14
سائٹ کے کوڈ
fa7432
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
80560
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں اشکال کے باوجود اس کے مضمون پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
سوال
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں اشکال کے باوجود اس کے مضمون پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
ایک مختصر
اس روایت میں دو افراد، یعنی محمد بن محمد اور اسحاق بن یعقوب ہمارے لئے نا شناختہ اور مجہول ہیں، لیکن محمد بن محمد بن عصام ، کے بارے میں شیعوں کے دو بڑے محدثین ( کلینی و شیخ صدوق) جو ان کے بالترتیب استاد و شاگرد تھے، نے دو رجالی قاعدوں یعنی، "اجازات کے مشایخ ثقہ ہوتے ہیں" اور " ایک شخص سے ثقات کا کثرت سے نقل کرنا اس شخص کے ثقہ ہونے کی دلیل کے پیش نظر اس کو ثقات میں شمار کیا جاسکتا ہے "۔ اسحاق بن یعقوب بھی کلینی کے مشایخ میں شامل تھے۔ انہوں نے ایک اہم کام ، جیسے امام زمان (عج) سے توقیعات کے صدور کے سلسلہ میں ان کی خبر پر اعتماد کیا ہے جو کام اس زمانہ میں ایک عام روایت نقل کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ خود حضرت (عج) نے اس توقیع میں ان کے لئے دعائے خیر کی ہے۔ کتاب " کمال الدین" میں نقل کی گئ توقیع کے آخر میں امام زمان (عج) فرماتے ہیں: " السلام علیک یا اسحاق بن یعقوب وعلی من اتبع الھدی"۔ اس کے علاوہ اس روایت کو شیعہ فقہا نے قبول کیا ہے۔
تفصیلی جوابات
کتاب وسائل الشیعہ میں " فاما الحوادث الواقعہ " نامی روایت اور اس کی سند مندرجہ ذیل ترتیب سے نقل کی گئی ہے: ابن بابویه ( شیخ صدوق)، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِصَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَعْقُوبَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ یَعْقُوبَ قَالَ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعَمْرِیَّ أَنْ یُوصِلَ لِی کِتَاباً قَدْ سَأَلْتُ فِیهِ عَنْ مَسَائِلَ أَشْکَلَتْ عَلَیَّ فَوَرَدَ التَّوْقِیعُ بِخَطِّ مَوْلَانَا صَاحِبِ الزَّمَانِ ع أَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنْهُ أَرْشَدَکَ اللَّهُ وَ ثَبَّتَکَ إِلَى أَنْ قَالَ وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَیْکُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ وَ أَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَمْرِیُّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَ عَنْ أَبِیهِ مِنْ قَبْلُ فَإِنَّهُ ثِقَتِی وَ کِتَابُهُ کِتَابِی.[1]
حدیث کی سند کی تحقیق :
جیسا کہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کو شیخ صدوق نے محمد بن محمد عصام کلینی نام کے ایک شخص نے نقل کیا ہے۔ اور انہوں نے محمد بن یعقوب کلینی اور انہوں نے اسحاق بن یعقوب سے اور انہوں نے نائب امام زمان (عج) محمد بن عثمان سے نقل کیا ہے۔
شیخ صدوق: شیخ صدوق کے ثقہ ہونے اور ان کی جلالت میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ شیعوں کے بزرگ علماء میں شمار ہوتے ہیں۔[2]
محمد بن محمد یعقوب عصام: ان کے بارے میں علم رجال کی کتابوں میں کسی قسم کی ستائش یا مذمت نہیں کی گئی ہے، اس لئے وہ ہمارے لئے مجہول ہیں۔
محمد بن یعقوب: ان کی وثاقت اور جلالت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ شیعوں کی چار بڑی حدیثی کتابوں میں سے " کافی" نام سے ایک برتر کتاب ان کی ہی ہے۔[3]
اسحاق بن یعقوب: ان کے بارے میں بھی علم رجال کی کتابوں میں کوئی توصیف نہیں کی گئی ہے، اس لئے محمد بن محمد کے مانند مجہول ہیں۔
اس بنا پر اس روایت میں دو افراد، یعنی محمد بن محمد اور اسحاق بن یعقوب ہمارے لئے نا شناختہ اور مجہول ہیں۔
ان دو افرا کی وثاقت کے قرائن:
بعض قرائن مذکورہ دو افراد کی وثاقت کی حکایت کرتے ہیں ہم ذیل میں ان کی طر اشارہ کرتی ہیں:
الف) محمد بن محمد بن عصام شیخ صدوق کے مشائخ میں سے ہیں، شیخ صدوق کی مختلف کتابوں سے نقل کرکے جو روایتیں ان سے وسائل الشیعہ میں نقل کی گئی ہیں، انھیں شیخ صدوق، بلا واسطہ ان سے نقل کرتے ہیں اور ان تمام روایتوں میں محمد بن محمد بن عصام نے شیخ کلینی سے نقل کیا ہے۔ بہ الاظ دیگر اگر چہ وہ ایک مجہول شخص ہیں لیکن شیعوں کے دوبڑے محدثین ( کلینی اور شیخ صدوق) بالترتیب ان کے استاد و شاگرد تھے۔ اس بنا پر انھیں دو رجالی قاعدوں ،یعنی " اجازات کے مشائخ ثقہ ہوتے ہیں" اور " ایک شخص سے ثقات کا کثرت سےنقل کرنا اس شخص کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔"[4] کے پیش نظر انھیں ثقات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
ب) اسحاق بن یعقوب بھی کلینی کے مشایخ میں شامل تھے۔ انہوں نے ایک اہم کام ، جیسے امام زمان (عج) سے توقیعات کے صدور کے سلسلہ میں ان کی خبر پر اعتماد کیا ہے جو کام اس زمانہ میں ایک عام روایت نقل کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ خود حضرت (عج) نے اس توقیع میں ان کے لئے دعائے خیر کی ہے۔ کتاب " کمال الدین" میں نقل کی گئ توقیع کے آخر میں امام زمان (عج) فرماتے ہیں: " السلام علیک یا اسحاق بن یعقوب وعلی من اتبع الھدی"۔[5]و[6] بعض لوگوں نے انھیں مرحوم کلینی کا بھائی جانا ہے۔[7]
اگر یہ پوچھا جائے کہ: کہاں معلوم کہ اسحاق بن یعقوب نے کوئی توقیع حاصل کی ہے، شائد انہوں نے اس دعا میں جھوٹ کہا ہو؟ ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ کلینی نے،ان سے جویہ توقیع نقل کی ہے۔ مذکورہ بحث کے پیش نظر۔ قطعا انھیں قابل اعتماد جانتے تھے ورنہ ہرگز یہ اقدام نہ کرتے۔ اس توصیف کے پیش نظر اس روایت کی سند میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔[8] اس کے علاوہ اس زمانہ میں حضرت (عج) کی طرف سے کسی شخص کو خط بھیجنا بذات خود اس شخص کی وثاقت کی دلیل ہے۔ [9]
بالفرض کوئی ان قرائن کوکسی وجہ سے قبول نہ کرے، تو اس کے علاوہ بھی شیعوں کے فقہ کی پوری تاریخ میں اس روایت پر علماء کی طرف سے اعتماد کے شواہد موجود ہیں۔
مرحوم صاحب جواہر اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" اس روایت کے مضمون پر علماء کے درمیان قولی اور عملی اجماع پایا جاتا ہے۔"[10]
فقہا نے بہت سی کتابوں میں، اس حدیث کی سند پر اعتراض کئے بغیر اپنے مباحث میں اس حدیث سے استادہ کیا ہے۔ ان دانشوروں میں مرحوم صاحب جواہر، شیخ اعظم مرتضی انصاری[11]، آقا رضا ہمدانی[12]، آیت اللہ سید محمد یزدی[13]، آیت اللہ میرزا محمد حسین نائنی[14]، آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی[15] وغیرہ شامل ہیں۔
اس بنا پر یہ حدیث سند اور مضمون کے لحظ سے شیعہ علماء کے لئے قابل قبول اور قابل اتفاق قرار پائی ہے۔
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین:
سؤال 24062 (سایت: 6460) (اعتقاد به ولایت فقیه).
حدیث کی سند کی تحقیق :
جیسا کہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کو شیخ صدوق نے محمد بن محمد عصام کلینی نام کے ایک شخص نے نقل کیا ہے۔ اور انہوں نے محمد بن یعقوب کلینی اور انہوں نے اسحاق بن یعقوب سے اور انہوں نے نائب امام زمان (عج) محمد بن عثمان سے نقل کیا ہے۔
شیخ صدوق: شیخ صدوق کے ثقہ ہونے اور ان کی جلالت میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ شیعوں کے بزرگ علماء میں شمار ہوتے ہیں۔[2]
محمد بن محمد یعقوب عصام: ان کے بارے میں علم رجال کی کتابوں میں کسی قسم کی ستائش یا مذمت نہیں کی گئی ہے، اس لئے وہ ہمارے لئے مجہول ہیں۔
محمد بن یعقوب: ان کی وثاقت اور جلالت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ شیعوں کی چار بڑی حدیثی کتابوں میں سے " کافی" نام سے ایک برتر کتاب ان کی ہی ہے۔[3]
اسحاق بن یعقوب: ان کے بارے میں بھی علم رجال کی کتابوں میں کوئی توصیف نہیں کی گئی ہے، اس لئے محمد بن محمد کے مانند مجہول ہیں۔
اس بنا پر اس روایت میں دو افراد، یعنی محمد بن محمد اور اسحاق بن یعقوب ہمارے لئے نا شناختہ اور مجہول ہیں۔
ان دو افرا کی وثاقت کے قرائن:
بعض قرائن مذکورہ دو افراد کی وثاقت کی حکایت کرتے ہیں ہم ذیل میں ان کی طر اشارہ کرتی ہیں:
الف) محمد بن محمد بن عصام شیخ صدوق کے مشائخ میں سے ہیں، شیخ صدوق کی مختلف کتابوں سے نقل کرکے جو روایتیں ان سے وسائل الشیعہ میں نقل کی گئی ہیں، انھیں شیخ صدوق، بلا واسطہ ان سے نقل کرتے ہیں اور ان تمام روایتوں میں محمد بن محمد بن عصام نے شیخ کلینی سے نقل کیا ہے۔ بہ الاظ دیگر اگر چہ وہ ایک مجہول شخص ہیں لیکن شیعوں کے دوبڑے محدثین ( کلینی اور شیخ صدوق) بالترتیب ان کے استاد و شاگرد تھے۔ اس بنا پر انھیں دو رجالی قاعدوں ،یعنی " اجازات کے مشائخ ثقہ ہوتے ہیں" اور " ایک شخص سے ثقات کا کثرت سےنقل کرنا اس شخص کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔"[4] کے پیش نظر انھیں ثقات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
ب) اسحاق بن یعقوب بھی کلینی کے مشایخ میں شامل تھے۔ انہوں نے ایک اہم کام ، جیسے امام زمان (عج) سے توقیعات کے صدور کے سلسلہ میں ان کی خبر پر اعتماد کیا ہے جو کام اس زمانہ میں ایک عام روایت نقل کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ خود حضرت (عج) نے اس توقیع میں ان کے لئے دعائے خیر کی ہے۔ کتاب " کمال الدین" میں نقل کی گئ توقیع کے آخر میں امام زمان (عج) فرماتے ہیں: " السلام علیک یا اسحاق بن یعقوب وعلی من اتبع الھدی"۔[5]و[6] بعض لوگوں نے انھیں مرحوم کلینی کا بھائی جانا ہے۔[7]
اگر یہ پوچھا جائے کہ: کہاں معلوم کہ اسحاق بن یعقوب نے کوئی توقیع حاصل کی ہے، شائد انہوں نے اس دعا میں جھوٹ کہا ہو؟ ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ کلینی نے،ان سے جویہ توقیع نقل کی ہے۔ مذکورہ بحث کے پیش نظر۔ قطعا انھیں قابل اعتماد جانتے تھے ورنہ ہرگز یہ اقدام نہ کرتے۔ اس توصیف کے پیش نظر اس روایت کی سند میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔[8] اس کے علاوہ اس زمانہ میں حضرت (عج) کی طرف سے کسی شخص کو خط بھیجنا بذات خود اس شخص کی وثاقت کی دلیل ہے۔ [9]
بالفرض کوئی ان قرائن کوکسی وجہ سے قبول نہ کرے، تو اس کے علاوہ بھی شیعوں کے فقہ کی پوری تاریخ میں اس روایت پر علماء کی طرف سے اعتماد کے شواہد موجود ہیں۔
مرحوم صاحب جواہر اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" اس روایت کے مضمون پر علماء کے درمیان قولی اور عملی اجماع پایا جاتا ہے۔"[10]
فقہا نے بہت سی کتابوں میں، اس حدیث کی سند پر اعتراض کئے بغیر اپنے مباحث میں اس حدیث سے استادہ کیا ہے۔ ان دانشوروں میں مرحوم صاحب جواہر، شیخ اعظم مرتضی انصاری[11]، آقا رضا ہمدانی[12]، آیت اللہ سید محمد یزدی[13]، آیت اللہ میرزا محمد حسین نائنی[14]، آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی[15] وغیرہ شامل ہیں۔
اس بنا پر یہ حدیث سند اور مضمون کے لحظ سے شیعہ علماء کے لئے قابل قبول اور قابل اتفاق قرار پائی ہے۔
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین:
سؤال 24062 (سایت: 6460) (اعتقاد به ولایت فقیه).
[1] حر عاملی، محمد بن الحسن، وسائل الشیعه، ج 27، ص 140،موسسه آل البیت، قم، 1409هجری، این روایت در کتاب کمال الدین و احتجاج طبرسی نیز آمده است.
[2] ۔ نجاشی،ابوالعباس، رجال نجاشی، حرف میم،ذیل نام محمد بن علی بن الحسین.
[3] ۔ رجال نجاشی، حرف میم، ذیل ترجمه محمد بن یعقوب.
[3] ۔ سبحانی ، جعفر، کلیات فی علم الرجال ، ص 333 و 353، موسسه نشر اسلامی، قم 1421.
[3] ۔ سبحانی ، جعفر، کلیات فی علم الرجال ، ص 333 و 353، موسسه نشر اسلامی، قم 1421.
[4] ۔ اس سلسلہ میں بعض دوسری توضیحات کا آیت اللہ ہادوی تہرانی کی کتاب " ولایت و دیانت" ص 100 پر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
[5]۔ صدوق ،محمد بن علی، کمال الدین ، ج2، ص 458،دار الکتب الاسلامیه، قم ، 1395 قمری.
[6] ۔ هادوی تهرنی، مهدی،ولایت و دیانت،ص 99، انتشارات خانه خرد،قم، 1381،به نقل از قاموس الرجال مرحوم تستری.
[7]۔ ملاحظہ ہو: سید کاظم حائرى، ولایة الأمر فى عصر الغیبة، صص125 – 122، به نقل از سؤال 25 (سایت: 258).
[8] ۔ یہ مطلب کتاب " تحریر المقال فی کتاب الرجال، میں تو ثیق کے عمومی طریقوں میں سے ایک طریقہ کے عنوان سے آیا ہے۔ ملاحظہ ہو: مهدى هادوى تهرانى، تحریر المقال فى کلیات علم الرجال، صص111 - 109). به نقل از سؤال 25 (سایت: 258).
[9] ۔ نجفی، محمد حسن،جواهر الکلام، ج11، ص 90،دار احیاء الثراث العربی، بیروت،بی تا.
[10] ۔ انصاری، مرتضی، القضاء والشهادات،ص 70، کنگره جهانی شیخ انصاری،قم، 1415.
[11] ۔ همدانی، آقا رضا، مصباح الفقیه،ج14، ص 289، موسسه الجعفریه، قم ،1416.
[12] ۔ یزدی،سید محمد کاظم، تکملة عروه الوثقی، محمد حسین طباطبایی، ج 2، ص 6،بی جا، بی تا.
[13] ۔ ائینی، میرزا محمد حسین، المکاسب و البیع، ج2، ص 337، دفتر انتشارات اسلامی، قم ، 1413.
[14] ۔ میلانی، سید محمد هادی ، محاضرات فی فقه الامامیه،ج 4، ص 277،موسسه طبع و نشر دانشگاه فردوسی مشهد، مشهد، 1395 قمری، وہ اس حدیث کے سند کے بارے میں کہتے ہیں: و هو ( اسحاق بن یعقوب) و إن لم یکن معروفا فی کتب الرجال، إلا أنه یظهر من التوقیع الشریف، و من أجوبة مسائله أنه کان من الشیعة الإمامیة، و له العلم و المعرفة و الجلالة...... ثم إن جهالة الراوی لا تضر فی المقام، لروایة الکلینی عنه، و تعدّد روایات المشایخ عن الکلینی عنه، و اشتهار هذا التوقیع، و العمل بمضمونه
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے