Please Wait
6845
ایسا لگتا هے که اس سوال کا سرچشمه، دنیا کی خصوصیات کا آخرت کے مسائل سے موازنه کرنا اور دینوی خصوصیات کو معیار و مقیاس قرار دینا هے ـ نقصان، عیب، بیماری، موت، سستی اورکمی اس دنیا سے مخصوص هیں، جبکه آیات و روایات کے مطابق عالم آخرت کی خصوصیات اس دنیا کے مطابق نهیں هیں ـ
ایک لذت کو چھوڑ کر دوسری لذت سے استفاده کرنا (ممکن هے بهشت میں چھوڑنے کی معنی میں نه هو) نعمت سے تنگ آنے کے لحاظ سے نهیں هے بلکه نعمتوں کی تازگی اور تنوع کے لحاظ سے هے ـ بهشت تمام انبیاء (ع) ائمه اطهار(ع) اور مومنین کا مطلوبه کمال هے ـ بقول امیر المومنین علیه السلام: بهشت کے بارے میں جو تعریف کی جائے گی، اگر اسے دل کی آنکھوں سے دیکھـ لو گے تو دنیا میں جو بھی چیز آپ کو سب سے زیبا نظر آئے اسے جھوڑ دوگے ـ
بهشتی انسان تلاش گرهے، کیونکه مسلسل اور گونا گون تجلیات میں قرار پاتا هے جسمانی تجلیات سے رضوان الٰهی کی طرف عروج کرتا هے اور ربوبیت حق کی فضا میں خلقت کا نظاره کرتا هے ـ
ایک اور نکته یه هے که ایک بهشتی انسان کے لئے لذت کی بنیاد، یه هے که وه اس وقت اپنے پروردگار کا مهمان بنا هے اور اس کے دسترخوان پر بیٹھا هے، یعنی اس حقیقت کے ساتھـ ملحق هوچکا هے اور اس لحاظ سے اس کے لئے افسردگی اور تنگ آنا کوئی معنی نهیں رکھتا هے ـ
ایسا لگتا هے که اس سوال کا سر چشمه دینوی خصوصیات اور اخروی مسائل کے درمیان ایک قسم کا موازنه کرنا اور دنیوی خصوصیات کو معیار و مقیاس قرار دنیا هے جبکه آیات و روایات کے مطالق آخرت کی خصوصیت اس دنیا کے مطابق نهیں هیں ـ بهشت میں عدم و نقصان کے ابعاد موجود نهیں هیں، اس بناپر، وهاں پر لذت دائمی هے اور اس میں تغیر و تبدل، خرابی اور تشویش کی گنجائش نهیں هے ـ خداوند متعال کا ارشاد هے: "آخرت کا گھر همیشه کی زندگی کا مرکز هے ـ"[1] پس عالم آخرت اور اس کی تمام چیزیں زنده و تازه هیں، بهشی انسان تلاش گرهے، کیونکه وه دائمی طور پر گوناگون تجلیات میں قرار پاتا هے، وه جسمانی تجلیات سے رضوان الٰهی کی طرف عروج کرتا هے اور ربوبیت حق کی فضا میں خلقت کا نظاره کرتا هے، اس بنا پر ایک لذت کو چھوڑ کر دوسری لذت سے استفاده کرنا کسی نعمت سے تنگ آنے کی وجه سے نهیں هے بلکه لذتوں کی تازگی، زنده هونے اور نعمت کے تنوع کی وجه سے هےـ
"بهشت" ایک بلند اور جاودانی مقام هے، تمام انبیاء (ع)، ائمه اطهار (ع) اور مومنین کا مطلوبه کمال هے اور دوسرے الفاظ میں تمام خدا پرستوں اور خدا کی تلاش کرنے والو کی آرزووں کی منزل هے
حضرت علی علیه السلام ایک خطبه کے ضمن میں بهشت کے اوصاف کا ایک گوشه یوں بیان فرماتے هیں:
"جو کچھـ بهشت کے بارے میں توصیف کی گئی هے اگر اسے دل کی آنکھوں سے دیکھو گے توجو کچھـ دنیا سے مربوط هے اسے چھوڑا دو گے، اگرچه وه دلکش اور زیبا هو، نفسانی خواهشات اور اس سے مربوط خوشیاں ایسے امور هیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی هیں ـ اگر چلتے هوئے، بهشت کی نهروں کے کناروں پر موجود درختوں کے پتوں کی دلکش آواز اور درختوں کی ان جڑوں پر غور کرو گے تو اپنے آپ کو بھول جاو گے ـ
اس طرح ان درختوں کی با طراوت و محکم شاخوں پر تروتازه مروارید کے خوشوں کا آویزان هونا اور شاخوں پر انگارنگ میوے، جو کسی محنت کے بغیر اتارے جاتے هیں اور هر کسی کے میل کے مطابق ان کے پهنچ میں هوتے هیں ـ اهل بهشت کے لئے محل، پاک شهد اور تصفیه شده شربتیں مهیا هیں ـ اهل بهشت وه افراد هیں که دائمی طور پر عنایت الٰهی ان کے شامل حال هوتی هے یهاں تک که اپنے ابدی گھر میں قرار پایئں اور یهاں سے وهاں جانے سے آزاد هوجایئں ـ پس اے سننے والے! جان لو که اگر اپنے دل کو ان زیبا مناظر تک پهنچنے میں مشغول کروگے تو بهشت میں پهنچنے کے شوق میں شاد مرگ هوجاو گے اور اسی محفل سے قبرستان کی طرف چلے جاوگے اور دنیا کو خیر باد کروگے ـ"[2]
ایک بهشتی کے لئے لذتوں کی بنیاد، وه هے که اس وقت اپنے خالق کا مهمان بناهے اور اس کے دسترخوان پربیٹھا هے، یعنی اس حقیقت سےملحق هوا هے اور اس لحاظ سے اب اس کے لئے تنگ آنا اور تھک جانا کوئی معنی نهیں رکھتا هے ـ دنیا میں نکاح، لذید طعام کھانا اور گوارا شربتیں پینا، ان کی لذتیں اور ان کا اثر کم هوتا هے اور نابود هوتی هیں، یه اس دنیا کے نقصان کی وجه سے هےـ اور اگر فرض کروگے که یهاں پر نقائص کے ابعاد نه هوں تو خوشی و مسرت کبھی دل تنگی اور برائی میں تبدیل نهیں هوں گی، اور هر لذت و عیش جو پیدا هوگی کسی کمی کے بغیر وهی ابدی هوگی ـ
گویا قرآن مجید ایک جگه پر اس نکته کا جواب دیتے هوئے ارشاد فرماتا هے: "یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انهوں نے نیک اعمال کئے ان کی منزل کےلئے جنت الفردوس هے، وه همیشه اس جنت میں رهیں گے اور اس کی تبدیلی کی خواهش بھی نه کریں گے ـ"[3]