Please Wait
6977
انسان کئی ابعاد پر مشتمل ایک مخلوق هے اور اس کے روحانی ، مادی ، حیوانی ، اجتماعی اور جذباتی و--- ابعاد هیں – اس کے یه مختلف ابعاد جنگ و مبارزه کی حالت میں هیں جو انسان کے عقیده اور طرز عمل کے در میان تضاد پیدا کر نے کا سبب بن سکتے هیں –
ادیان الهی، خاص کر اسلام، انسان کو حیوانی رجحانات سے نجات دلاکر اس کے مختلف ابعاد میں تعادل اور توازن پیدا کر کے اسے الهی اقدار اور حقیقی کمال کی طرف هدایت کر نے کے لئے آئے هیں – جس قدر انسان کمال کے درجه کے قریب هو جائے، اسی قدر اس کے عقائد اور طرز عمل کے در میان تضاد کم تر هو گا ، یهاں تک که اگر وه حقیقی کمال کی منزل تک پهنچ گیا تو انسان کامل ( معصوم) کے مانند اس کے طرز عمل اور عقائد کے در میان کوئی تضاد باقی نهیں رهے گا-
قرآن مجید نے عقیده اور طرز عمل کے در میان تضاد کو مسترد کیا هے-
اس تضاد کا سرچشمه چند امور هیں ، ان میں سے بعض حسب ذیل هیں: اسلامی قوانین سے مکمل طور پر آگاهی کا فقدان، ایمان کی کمزوری ، نفسانی خواهشات ، غلط رسومات، برے ماحول کے اثرات وغیره-
اس بات کی طرف توجه کر نا چاهئے که ان تضاد کو دور کر نے کے لئے ان کی بنیاد کو نابود کرنے کی ضرورت هے که عام طور پر انبیاء علیهم السلام اور خاص کر پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی بعثت کا مقصد یهی تھا-
انسان چند ابعاد پر مشتمل ایک مخلوق هے- اس میں روحانی والهی ، مادی و حیوانی ، اجتماعی اور جذباتی وغیره ابعاد پائے جاتے هیں-
ان ابعاد میں سے هر ایک کے الگ الگ رجحانات وجذبے هیں جو مسلسل آپس میں ٹکراٶ اور مبارزه کی حالت میں هو تے هیں اور چونکه انسان ابتدائے پیدائش سے حیوانی و مادی بعد کے ساتھـ منسلک هو تا هے ، اور دوسری جانب سے مادی امور ظاهری حواس سے قابل مشاهده وادراک هیں ، اس لئے روز بروز انسان میں حیوانی بعد قوی تر هو تا جاتا هے – لیکن انسان کی روز مره زندگی میں اس کے روحانی والاهی بعد کی بقا و تقویت قابل مشا هده نه هو نے اور اس کے ساتھـ براه راست منسلک نه هو نے کی وجه سے، اس کے لئے زحمت و تکلیف اٹھانے کی ضرورت هوتی هے اور یه آسانی کے ساتھـ حاصل نهیں هوتی هے – انسان کا الهی پهلو اس کی پاک فطرت سے منسلک هے اور اس کی بقا و تقویت انسان کی روح کی پاکی کے تحفظ سے وابسته هے-
صدر المتا لھین کے مطابق حیوانی ابعاد انسان کے بالغ هو نے سے پهلے اس کے دل میں جگه لیتے هیں اور اس پر تسلط جماتے هیں ، لیکن روحانی ابعاد انسان کی عقل میں اس کے بالغ هو نے کے بعد رشد و بالیدگی شروع کر تے هیں او ر چالیس سال کی عمر میں کمال تک پهنچ جاتے هیں اور حیوانی ابعاد اور روحانی و عقلی ابعاد کے درمیان جنگ بالغ هو نے کے بعد شروع هو تی هے –[1]
ادیان الهی ، خاص کر اسلام ، انسان کو کمال کی طرف راهنمائی کر نے اور نفسانی و حیوانی خواهشات سے نجات دلانے اور اس کے مختلف ابعاد میں تعادل اور توازن بر قرار کر نے کے لئے خدا کی طرف سے بھیجے گئے هیں – اس لئے انسان کے حیوانی پهلو اور الهی و روحانی قدروں کو ارتقا بخشنے والے اسلامی احکام کے در میان مسلسل تضاد رهتا هے، اور انسان جس قدر کمال کے مقام کے قریب تر هو تا هے ، اس کے عقائد اور دینی و مذهبی تعلیمات اور اس کے طرز عمل کے در میان تضاد کم تر هو تا هے ،یهاںتک که انسان کامل ( معصوم) میں اس کے دینی عقائد اور طرز عمل میں کسی قسم کا فرق مشاهده نهیں هو تا هے – لیکن عام انسانوں اور ایمان کے نچلے در جات رکھنے والوں میں ان تضاد کا مشاهده کیاجاتا هے-
واضح هے که یه تضاد جو بعض مسلمانوں میں پایا جاتا هے وه مسلمانوں سے مخذصوص نهیں هے ، بلکه الهی اقتداررکھنے والے تمام ادیان و مکاتب فکر کے لوگوں میں بھی مشاهده هو تے هیں – لیکن چونکه اسلام مکمل ترین دین هےاور اس کے احکام بلند ترین احکام اور تمام ابعاد میں بے نیاز هیں، اس لئے اسلام کی پیروی کا دعوی کر نے والوں اور اسلام پر عمل کر نے والوں کے در میان یه تضاد وتفاوت واضح تر هے، کیونکه اسلام کا حقیقی مومن وه شخص هے جو تمام ابعاد میں اسلام کے احکام کی پیروی کرے-
قرآن مجید همیشه اس مشکل ( عقیده وطرز عمل میں تضادم ) کے بارے میں متوجه رهاهے اور اسے ایک ناپسند امر جان کر اسی کا منع کر تے هو ئے فر ماتا هے : " ایمان والو! آخر وه بات کیوں کهتےهو جس پر عمل نهیں کرتے هو- الله کے نزدیک یه سخت ناراضگی کا سبب هے که تم وه کهو جس پر عمل نهیں کر تے هو –[2]"
اب کیا کیا جائے ؟ کیا صحیح عقائد کو چھوڑ نا چاهئے ؟ کیا عقائد میں مشکل هے یا ایمان و اسلام کا دعوی کر نے والے انسانوں میں مشکل هے؟
یقیناً دینی عقائد وتعلیمات اسلامی صحیح ترین تعلیمات هیں- پس اس تضاد کی بنیاد کو پهچاننا چاھئےً اور اسے نابود کر نا چاهئے اس کی بعض بنیادیں حسب ذیل هیں :
١- اسلام کے حیات بخش احکام اور فلسفه اور اس کے نتائج کے بارے میں مکمل آگاهی کا فقدان :
قدرتی بات هے که جس قدر معرفت اور پهچان زیاده هو ، دلچسپی اور پابندی زیاده هو گی اور اسی بنیاد پر اسلام کا ایک تاکیدی حکم زندگی کے تمام مراحل میں علم و دانش حاصل کر نا هے اور ان کا ایمان بھی قابل قدر شمار کیا گیا هے ، لیکن افسوس کے ساتھـ اعتراف کر نا چاهئے که اسلام و ایمان کا دعوی کر نے والے اکثر لوگ اسلامی احکام کے بارے میں کافی معلو مات نهیں رکھتے هیں که یهی امر ان کے طرز عمل اور اسلام کے در میان فاصله پیدا هو نے کا سبب بن جاتا هے-
٢- ایمان کی کمزوری : اسلام کے مطابق ایمان کے کئی درجے هیں که ان میں سے کمزور ترین درجه یعنی زبان سے ایمان شروع هو تا هے اور یهاں تک اپنے عروج ، یعنی دینی اعتقادات تک پهنچتا هے-
امام جعفر صادق علیه السلام فر ما تے هیں : " ایمان کا درجه زیاده هونے سے ، خدا کے نزدیک مومنین کے درجات بلند تر هوتے هیں---[3]" جب انسان اپنے عقائد میں مکمل یقین کے در جه پر پهنچتا هے، تو اس کے قول و فعل میں تضاد نهیں هو گا – بنیادی طور پر دین اور انبیاء علیهم السلام کا مقصد یهی تھا تاکه روح ایمان کو تقویت مل کر مسلمانوں کے اعمال اور اعتقادات میں فاصله کم هو جائے اور اس قسم کے فاصله کے کم هو نے کے لئےکافی تلاش وکوشش کی ضرورت هے اور تمام شهوانی وحیوانی رجحانات کے ساتھـ مبارزه کرنے کی ضرورت هے – یه اگر چه ایک سخت اور مشکل کام هے ، لیکن ممکن هے اور معصوم کے علاوه بهت سے انسان اس درجه پر فائز هو چکے هیں اور اس تضاد کو دور کرسکے هیں-
٣- نفسانی خواهشات : جیسا که بیان هوا،انسان کئی ابعاد پر مشتمل ایک مخلوق هے که هر بعد میں کئی رجحانات اور جاذبے پائے جاتے هیں جو مسلسل آپس میں مبارزه کی حالت میں هو تے هیں –اگر انسان اپنی نفسانی خواهشات پر قابو نه پا سکے ، تو دینی تعلیمات پر عمل کر نے میں مشکلا ت سے دوچار هو تا هے، جن پر عمل کر نا سخت اور مشکل هے-
٤-تعصبات اور غلط رسو مات: بعض اقوام وملتوں میں تعصبات اور برے آداب ورسوم پائے جاتے هیں ، جن کی کو ئی عقلی دلیل نهیں هوتی هے ، بلکه یه رسو مات انھیں اپنے اسلاف سے وراثت میں ملتے هیں اور افسوس کا مقام هے که ایسے لوگ انھیں اپنی زندگی میں اپنے طرز عمل کامعیارقرار دیتے هیں ، جیسے دیکھا دیکھی وغیره اور یهی امر ا ن کے اسلام کے نورانی احکام سے دور هو نے کا سبب بن جاتا هے –اسلام نے اس قسم کے تعصبات کی سخت مخالفت کی هے – لیکن افسوس که اس قسم کے تعصبات بعض افراد کی زندگی میں پائے جاتے هیں-
٥- برے ماحول سے افراد کا متاثر هونا: انسان ایک اجتماعی مخلوق هے (ان افراد کے علاوه که ایسی بلند ارواح کے مالک هیں جو اپنے ماحول کومتاثر کر سکتے هیں ) اکثر لوگ ماحول سے متاثر هو تے هیں اور چونکه اکثر ماحول کی حالت ابھی مطلوب نهیں هے اس لئے لوگوں پر اس کے برے اثرات پڑتے هیں خاص کر اجتماعی وسائل جیسے : ریڈیو ، ٹیلی ویزن ، سٹلائٹ ں انٹر نٹ وغیره کے پھیلاٶ کے پیش نظر که ان کی وجه سے دنیا ایک چھوٹے گاٶں میں تبدیل هو گئی هے- مقصود یه هے که اگرچه روابط کا پھیلاٶ ناقابل انکار چیز هے اور اس کو حاصل کر نے کے لئے کوشش کر نی چاهئے، لیکن معاشره پر ان عوامل کے برے اور نامناسب اثرات سے غافل نهیں رهنا چاهئے اور اس کے زهریلے اثرات کو دور کر نے میں کوتاهی نهیں کر نی چاهئے-
یه تضاد کی بعض جڑیں تھیں جنھیں یهاں پر بیان کر نے کی گنجائش تھی اور هم اعتراف کر تے هیں که اس بحث کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت هے که امید هے کسی دوسرے موقع پر اس سلسله میں هم مزید بحث کریں گے –
بهر حال هماری بات کا حسن ختام یه هے که مسلمانوں کے طرز عمل کا ان کے عقائد اور دینی تعلیمات سے هم آهنگ هو نے کے لئے اولاً : تضاد اور فاصلوں کی جانکاری حاصل کر نی چاهئے اور ثانیاً انھیں ختم کر نے کے لئے اقدام کر نا چاهئے-
[1] - اسفار الاربعه ج٩،ص٩٣-
[2] - سوره صف ٢ و٣-
[3] - بحار الانوار ،ج ٦٦،ص ١٧١: " عن ابی عمرو الزبیری عن ابی عبدالله ع قال با لزیاده فی الایمان تفاضل المو منون با لدرجات عندالله قلت وان للایمان درجات و منازل یتفا ضل بها المٶ منون عندا الله فقال نعم قلت صف لی ذلک رحمک الله حتی افهمه قال ما فضل الله به او لیاء ه بعضهم علی بعض فقال تلک الرسل فضلنا بعضهم علی بعض منهم من کلم الله ورفع بعضهم درجات الایه و قال ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض وقال انظر کیف فضلنا بعضهم علی بعض و للآخره اکبر درجات وقال ھم درجات عندالله فھذا ذکر در جات الایمان و منازله عندالله "-
" عن ابی بصیر عن ابی عبدالله ع قال لا نقول درجه ]واحده ان الله یقول درجات بعضها فوق بعض انما تفاضل القوم با لا عمال"-