Please Wait
9267
"طی الارض" کی حقیقت کے بارے میں مختلف نظریات موجود ھیں۔ جن میں سے ایک نظریھ ابن عربی (رح) کا " اعدام اور ایجاد " کا نظریھ ھے اس نظریھ کے مطابق شخص اپنے آپ کو مبدا کی جگھ سے " عدم " کرکے، مورد نظر جگھ میں " ایجاد " کرتا ھے ، دوسرے نظریھ کے مطابق طی الارض بدن کا تیزی سے منتقل ھونا ھے جو فرد کو بلند روحانی طاقت کے ذریعھ سے حاصل ھوتا ھے۔
بھ ھر حال ان میں جس نظریھ کو بھی قبول کریں۔ ھم یھ کهه سکتے ھیں کھ یھ بات ھر ایک کے لئے ممکن نھیں ھے بلکھ صرف اولیای الھی کیلئے متحقق ھوتی ھے۔
"طی الارض" کی حقیقت کے بارے میں اور اس کے مفھوم کو بیان کرنے اور اس کا عقلی تجزیھ کرنے کے متعلق علماء اور دانشوروں کی طرف سے مختلف نظریے پیش کئے گئے ھیں۔ ان ھی نظریات میں سے ایک نظریھ " نظریھ اعدام اور ایجاد " ھے جو محی الدین ابں عربی(رح) کی طرف سے پیش کیا گیا ھےاور بعض بزرگوں نے بھی اسے قبول کیا ھے ، اس نظریھ کے مطابق کوئی شخص اپنے آپ کو مبدا میں عدم کرکے مورد نظر جگھ پر ظاھر کرتا ھے۔
اس نظریھ کی بنیاد فلسفیانھ حرکت جوھری یا عرفانی تجدد امثال کے مسئلھ پر مبنی ھے ، تجدد امثال ، کی بنیاد پر سب موجودات مادی اور غیر مادی اور حرکت جوھری کے مطابق صرف مادی موجودات اپنے ظاھر (جو کھ آرام اور ثابت ھے)، کے برعکس ھر لمحه میں معدوم ھو کر بعد والے لمحھ میں نئے فیضان سے موجود ھوجاتے ھیں۔ دوسری عبارت کے مطابق، موجودات ھر دم اپنے وجود میں مبدا ھستی سے فیضیاب ھوتے ھیں اور اس طریقے سے اپنی بقاء کو دوام بخشتے ھیں اور اگر لمحھ بھر کے لئے اس سے فیض وجود کو جائے اور یھ مسلسل امداد ان تک نھ پھنچے تو وه سب دیار عدم میں چلے جائیں گے ۔
اس مطلب کی وضاحت کے لئے بجلی کے لیمپ کی روشنی کی مثال کو مد نظر رکھیں جو ظاھر میں مستمر لیکن سیال ھے اس مثال میں ھر لمحھ بجلی نئی توانائی کے ساتھه حاصل ھونے سے اپنے اصلی مبدا سے روشن ھوتی ھے اور اگر ایک آن کیلئے بھی بجلی قطع ھوجائے اور نئی توانائی نھ پھنچے تو لیمپ بجھه جائے گا اور ھر سو اندھیرا چھا جائے گا۔ اس کا بھترین بیان اس طرح ھے کھ بجلی کا لیمپ ھر آن اور ھر لحظه اپنی ذات میں اندھیرے کا متقاضی ھے اور ھر آن نئی توانائی حاصل کرکے روشن ھوتا ھے اور اس ترتیب سے اس کی ظاھری روشنی استمرار پاتی ھے لیکن چونکھ اس کا بجھه جانا بھت ھی تیزی سے واقع ھوتا ھے اس لئے ھم اس کو نھیں دیکھه سکتے اور لیمپ کی روشنی کو ایک ثابت چیز تصور کرتے ھیں۔
عالم میں موجودات ، بالکل اسی طرح ھیں وه ھر لحظھ میں، معدوم ھوکر دوسرے لمحے میں وجود کے فیض سے موجود ھوتے ھیں۔ لیکن چونکھ ان کا موجود اور معدوم ھونا بڑی تیزی سے واقع ھوتا ھے اس لئے ھم اسے احساس نھیں کرتے اور اشیاء کا وجود ایک ثابت اور استمرار چیز تصور کرتے ھیں۔
اب جو انسان طی الارض پر طاقت رکھتا ھے وه حقیقت میں اپنی ایجاد کے ظرف کو عدم کے ظرف سے الگ کرتا ھے اور ایک لمحھ میں اپنے آپ کو ایک جگھ سے مورد نظرجگھ پر منتقل کرتا ھے بغیر اس کے کھ دوسرے موجودات میں کوئی تبیدلی رونما ھوجائے او ان کے زمانی اور مکانی معیارات میں تبدیلی واقع ھو ، اگر یھ انسان طی الارض بھی نھ کرتا تو وه ھر آن اور ھر لحظھ معدوم اور موجود ھوتا اور جب طی الارض کرتا ھے پھر بھی موجود اور معدوم ھوتا ھے البتھ اس فرق کے ساتھه کھ اس کے معدوم اور موجود ھونے کا ظرف مختلف ھوا ھے پھلے اسی مکان میں جھاں معدوم ھوا تھا موجود ھوتا تھا لیکن طی الارض میں مکان مبدا میں معدوم اور مورد نظر مکان میں موجود ھوتا ھے۔
یھ خلاصھ ھے اس تحلیل کا جو محی الدیں عربی (رح) کے طی الارض کے نظریھ کی بنیاد سے کی جاسکتی ھے [1]
دوسرے نقطھ نظر کے مطابق طی الارض کا مطلب یھ ھے کھ انسان بلند روحانی طاقت ، اور اپنے نفس کےساتھه مجاھدت اور ریاضت کرکے ایک طاقتور روح کا مالک بنتا ھے اور اس کا بدن اس کی روح کا تابع ھوجاتا ھے تو بدن بھی سب عوالم میں بڑی تیزی کے ساتھه حرکت کرکے منتقل ھوتا ھے ۔
طی الارض جو اولیاٰ الھی کیلئے متحقق ھوتا ھے روح کی تھذیب اور شرعی ریاضت سے حاصل ھوتا ھے اور بدن روح کے ساتھه ھم آواز ھوتا ھے اور جس طرح روح کو قوت حاصل ھوتی ھے اس کے بدن کو بھی قوت حاصل ھوتی ھے۔
جسم خاک از عشق بر افلاک شد۔ کوه در رقض آمد و چالاک شد۔
عشق سے جسم خاکی افلاک کو پھنچا ۔ عشق سے پھاڑ گنگنانے لگا اور چالاک ھوا۔[2]