۱۔ پیغمبر اور معصومین علیھم السلام پابند تھے کھ وہ اپنے ظاھری علم اور طاقت کا استعمال نھ کریں ۔ اور وہ معجزہ اور خلاف عادت کام کو انجام نھ دیں ، مگر یھ کھ خاص خاص جگھوں پر جھاں خدا کا اذن ھو اور خدا کے دین کی مصلحت اور لوگوں کی ھدایت کا مسئلھ سامنے آتا ھو۔
۲۔ حضرت امام باقر علیھ السلام نے فرمایا: اسم اعظم ۷۳ حروف ھیں ، " آصف برخیا کے پاس ایک حرف تھا جس کو استعمال کرنے سے اس نے بلقیس کے تخت کو حاضر کیا اور ھمارے پاس " ۷۲" اسم اعظم کے حروف ھیں۔ [i]
۳۔ ھاں امام حسین علیھ السلام بھی اسم اعظم کے حامل تھے اور مستجاب الدعوۃ (جن کی دعا قبول ھوتی ھے ) بھی ھیں۔ وہ آسانی سے زمین سے ایک خوشگوار چمشمھ نکال سکتے تھے۔ اور اپنے علاوہ اپنے اصحاب کو بھی سیراب کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نھیں کیا ، کیوں کھ انھیں ظاھری اسباب کے ذریعے اپنی ذمھ داری کو نبھانا تھا۔
۴۔ اگر ائمھ اطھار علیھم السلام الھی علم اور طاقت ،(جسے انھوں نے خدا سے حاصل کیا تھا) اپنی زندگی گزارتے، اور اپنی ضروریات کو پورا کرتے، تو اس صورت میں ، ان کی زندگی دوسروں کیلئے نمونہ نھیں بن سکتی ۔ اگر وہ سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں صبر و تحمل اور فدا کاری سے کام نھ لیتے تو انسانی اقدار میں دوسروں کیلئے نمونہ نھیں ھوتے۔
۵۔ عاشورا کا واقعھ ، امام حسین علیھ السلام کی ظلم کے خلاف جنگ، انحرافات اور بدعتوں کے مقابلے میں قیام کرنے کا ایک نمونہ ھے جو ھر زمانے میں خدا کے احکام اور قوانین کی حفاظت کیلئے پیش ھوسکتا ھے۔ اس صورت میں سب مسلمانوں اور عام انسانوں کے لئے ضروری ھے کھ ان بدعتوں کے خاتمے کے لئے قیام کریں۔ اگر امام حسین علیھ السلام اس اھم ذمھ داری کو معجزے کی طاقت اور تکوینی ولایت کی قوت سے انجام دیتے تو پوری انسانیت کیلئے ھر زمانے میں زندہ نمونھ نھ بنتے۔
۶۔ معتبر روایات میں آیا ھے کھ امام حسین علیھ السلام نے اپنے اصحاب کی تشنگی بجھانے کیلئے حضرت علی اکبر کو شب عاشورا میں کچھہ سواروں کے ھمراہ پانی لانے کیلئے مقرر کیا ، اور خود بھی حضرت امام حسین علیھ السلام نے حضرت عباس علیھ السلام کی شھادت کے بعد اپنی پیاس بجھانے کیلئے اپنے آپ کو فرات کے کنارے پھنچانے کی کوشش کی لیکن وہ پانی لانے میں کامیاب نھیں ھوئے ۔[ii]
۷۔ اسی طرح اور بھی معتبر روایات میں ھے، کھ عاشور کے دن حضرت امام حسین علیھ السلام حضرت علی اصغر علیھ السلام کو دشمنوں کے مقابلے میں لائے اور فرمایا:" اے لوگو ! اگر میرے اوپر رحم نھیں کرتے ھو تو اس بچے پر رحم کرو! ، لیکن حرملھ نے ایک تیر سے اس بچے کو شھید کردیا" [iii]
۸۔ جب حضرت امام حسین علیھ السلام نے دشمنوں سے پانی مانگا ، تو کس طرح اپنی خواھش اور عقیدت سے امام کیلئے پانی لانے والے آدمی کے پانی کو ٹھکرادیتے۔
۹۔ عبید اللھ ابن زیاد کے لشکر نے عاشور کے دن حضرت کے خیام کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اور ھر طرح کی آمد و رفت کو قابو کر رکھا تھا۔ انھوں نے اتنے بڑے لشکر کو اس غرض سے مقرر کیا گیا تھا کھ حضرت امام حسین علیھ السلام کو پانی سے محروم کرکے انھیں سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کریں۔ اب یھ سوال اٹھتا ھے کھ اس سقا نے کس طرح دشمن کا محاصرہ توڑ کر اپنے آپ کو امام تک پھنچادیا؟ کیا اس طرح کا سقا انسان تھا یا ایک غیبی فرشتھ جو مادی مخلوقات سے مافوق تھا۔
نتیجھ یھ کھ یھ روایت اور اس جیسی روایتیں جو حضرت امام حسین علیھ السلام اور انکے با وفا اصحاب اور اھل بیت علیھم السلام کی تشنھ کامی پر سوال کی انگلی اٹھاتی ھیں اور یھ ظاھر کرنے کی کوشش کرتی ھیں کھ امام علیھ السلام پانی کے لحاظ سے کسی طرح کی تشنگی میں نھیں تھے۔ وہ امام کی مظلومیت اور دشمنوں کے جرم کو چھپانے کی کوشش کرتی ھیں تا کھ اس طریقے
[i] کلینی ، محمد بن یعقوب ، اصول کانی ، ج ص ۲۳۰ ، ح ۱۔
[ii] محمود ، شریفی و دیگران، فرھنگ جامع سخنان امام حسین علیھ السلام ، ترجمھ ، علی مؤیدی۔
[iii] ایضاً ، ص ۵۳۴۔