Please Wait
6252
بہت سےمکاتب فکر کے بر خلاف کہ جو بشری ضرورتوں کے صرف ایک رخ مادی یا پھر معنوی رخ کو مدّ نظر رکھتے ہیں اسلام نے درمیانی اور معتدل راستہ کو انتخاب کیا ہے الہی نعمتوں سے صحیح طور سے استفادہ کرنا نہ فقط یہ کہ معنوی مسائل اور عالم آخرت سے ٹکراؤ نہیں رکھتا بلکہ انسان کی ھدایت و کامیابی کی راھوں کو اور بھی زیادہ ھمراہ کرتا ہے
انسانی معاشروں میں رائج اور موثر ادیان مذاھب اور مکاتب فکرانسانوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے اور ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیئے کچھ نصب العین اور نسخے پیش کرتے ہیں ۔
مادی مکاتب فکر پورے طور پر معنوی اور روحانی ضرورتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا سرے سے اس پر اعتقاد نہیں
رکھتے اور انسان کی کامیابی زیادہ سے زیادہ مادی لذتوں کے حصول میں دیکھتے ہیں اس کے بر خلاف بعض مکاتب فکراور مذاھب انسان کی روح کی پرورش اور اس کی تقویت کو بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ اور صرف مادی ضرورتوں کی تکمیل کو اھمیت نہیں دیتے بلکہ وہ مادی لذتوں اور مادی مظاہر سے پرہیز کو انسان کی کامیابی قرار دیتے ہیں اور انسان کو ھمیشہ ترک دنیا اور تمام مادی تعلق و شخص سے دور اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں البتہ یہ نتائج انسان اور جہان سے متعلق اس کے کائناتی تصور کا نمونہ ہیں
اس بارہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مادی مظاہر کی طرف حد سے زیادہ توجہ اور گوناگون لذتوں سے قیدوبند جنسی غرائز اور شہوتوں کی کھلی آزادی جو آج کی مادی دنیا میں حصوصاً مغربی معاشروں میں رائج ہے وہ مذہب کے نام سے مادی لذتوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کا شدید رد عمل ہے اسلام معنوی و روحانی مسائل پرتوجہ دینا اور اللہ کی نعمتوں سے استفادہ سے جدا نہیں جانتا اسی لئےاسلامی تعلیمات میں رہبانیت یا دنیا بیزاری اور اللہ کی نعمتوں سے استفادہ نہ کرنے سے روکا گیا ہے امام صادق (علیہ اسلام) فرماتے ہیں: خداوند عالم نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی (علیھم السلام) کی شریعتیں بخشیں ۔۔۔۔ فطری اور آسان قانون جو نہ رہبانیت ہے اور نہ سیاحت(موفیانہ جہاںگردی) بلکہ اس دین میں پاکیزہ چیزوں کو حلال اور کثیف و گندگی چیزوں کو حرام کیا گیا ہے اور سنگین بوجھ اور زنجیریں جو لوگوں پر تھیں ہٹائی گئی ہیں [1]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور دینی پیشوا اپنی امت کے لوگوں کو رہبانیت سے دوری کی تاکید کرتےرہے ہیں:
منجملہ حضرت امیرالمومنین ؑ کا ایک دوست ان کے پاس آیا اوراس نے اپنے بھائی کی شکایت جو دنیا سے بیزار ہو چکاتھا۔ خدا کی نعمتوں مثلاّ گوشت ،مناسب لباس اور ازدواجی لذتوں سے دور رہنے لگاتھا امام نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آو ۔ جب عاصم امام کے پاس آیا تو حضرت نے اس سے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا: افسوس ہے تجھ پر اےعاصم تم یہ خیال کرتے ہو کہ خداوند عالم نے لذتوں اور نعمتوں کو تم پر مباح کیا ہے لکین وہ پسند نہیں کرتا کہ تم ان چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ؟ تم خدا کی نظر میں اس سے کہیں حقیر ہو (جوایسے سوچتے ہو)کیا تمہیں اپنی بیوی اور بچوں پر رحم نہیں آتا؟ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ خدا نے پاکیزہ چیزوں کو تم پر حلال کیا لکین اس بات سے بیزار ہیں کہ تم ان سے فائدہ اٹھاؤ؟ [2]
البتہ اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ دنیا سے جس چیز کی مذمت کی گئ ہے وہ اس سے شدید لگاؤ ہے ،اور وہ بھی اس حد تک کہ انسان کو خدا اور اس کی مخلوقات سے سلسلہ میں اس وظائف سے غافل کردے اور غرور آخرت کی فراموشی دوسروں پر فخر، اسراف، نا شکری اور ۔۔۔ کا باعث ہو۔
دوسری صورت میں اگر ہم دنیاکو آخرت اور قرب الہی تک پہنچنے کے لئے پل قراردیں تو دنیا مزموم نہیں ہے۔ اور اس سلسلہ میں بہت سی روایتں ائمہ معصومین سے ہم تک پہنچی ہیں۔ یہاں نمونہ کے طور پر دو روایتں جو ہماری گفتگو سےمربوط ہیں ذکر کرتے ہیں:
۱- ایک شخص حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں دنیا کی برائی کر رہاتھا، حضرت نے اسے سرزنش کرتے ہوئے فرمایا :
’’دنیا سچے لوگوں کے لئے سچائی کی جگے، دنیا کی شناخت رکھنے کے والوں کے لیئے تندرستی کا گھر، زادراہ حاصل کرنے والوں کے لیئے بے نیازی کا گھر، نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیئے،نصیحت کا مکان ہے۔ دنیا اللہ کے دوستوں کے لئے سجدہ کی جگہ ، اللہ کے فرشتوں کا مصلی، وحی کے نزول کی جگہ ، اور اللہ کے چاہنے والوں کے لیئے تجارت کی جگہ ہے، جس میں وہ اللہ کی رحمت حاصل کریں اور جنت کا نفع کمائیں۔[3]
۲۔ ابن ابی یعفور کہتے ہیں: میں نے امام صادق (علیہ السلام) سے عرض کی : ہم دنیا کو پسند کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا: دنیا سے تمہارا مقصد کیا ہے؟ میں نے کہا: میں چاہتا ہوں شادی کروں، حج کے لیئے جاؤں، اپنے خاندان کی مدد کروں، اپنے بھایئوں کو مال بخشوں، صدقہ دوں ۔ تو امام نے فرمایا: یہ دنیا کی باتیں نہیں ہیں ۔ یہ اعمال آخرت سے تعلق رکھتے ہیں ۔
دنیا و آخرت میں آرام و آسائش ۲۹۰۲ (سائٹ:۳۱۱۲)
دنیا یا آخرت کے لئے کوشش ۱۸۲۱ (سائٹ:۲۱۳۰)
[1] - کلینی محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۲۲، ح ۱، دارالکتب الاسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۵ش۔
[2] - ہمان، ج۱، ص۴۱۰۔
[3] - نہج البلاغہ، ص۴۹۲، حکمت ۱۳۱، دارالحجرۃ، قم