Please Wait
8848
قرآن مجید اور اهل بیت علیهم اسلام کى روایتوں سے معلوم هوتا هے که: گناهوں کے اخروى کیفر اور دنیوىسزا کے لحاظ سے مختلف مراتب هیںـ قرآن مجید نے شرک کو سب سے بڑے گناه اور ظلم کے طور پر یاد کیا گیا هےـ اس کے علاوه بعض گناهوں کا مرتکب هونے کے لئے غذاب کا وعده دیا گیا هے، که وه ان گناهوں کے کبیره یعنى بڑے هونے کى علامت هےـ
دنیوى کیفر وسزاوں کے لحاظ سے بھى بعض گناهوں کے لئے کوڑے، بعض کے لئے سزائے موت، بعض کے لئے کفاره اور نقدى جرمانه کى سزا معین کى گئى هےـ
خداوند متعال نے انسان کى سعادت اور خوش بختى کے لئے کچھـ قوانین اور دستورات مقرر کئے هیںـ اگر کوئى شخص ان قوانین اور دستورات پر عمل کرکے تو وه دنیا و آخرت کى سعادت تک پهنچ سکتا هے اور ان کى مخالفت اور نافرمانى کرنے کى صورت میں خود کو حقیقى سعادت سے محروم کر سکتا هےـ
نافرمانى، اطاعت سے خارج هونے اور امر و فرمان کو انجام نه دینے کے معنى، گناه و معصیت هےـ[1] دنیوى اور اخروى نتائج اور کیفر و سزا کے لحاظ سے مختلف گناهوں کے درمیان فرق هےـ
قرآن مجید کى روشنى میں گناهوں کى تقسیم:
قرآن مجید نے شرک کو سب سے بڑے گناه کے عنوان سے معرفى کیا هے:" ان شرک لظلم عظیم"[2] " شرک ایک بڑا ظلم هے"ـ ایک دوسرى آیت میں خداوند متعال نے گناهوں کى شرک اور شرک سے کم تر کے عنوان سے تقسیم بندى کى هے:" خدا وند متعال اس کو نهیں بخشتا هے جو اسے شریک قرار دے اور اس کے علاوه جس کو چاهے بخش دیتا هے"ـ[3] ایک دوسرى جگه پر ارشاد هوتا هے :"جو لوگ گناهان کبیره اور فحش باتوں سے پرهیز کرتے هیں (گناهان صغیره کے علاوه) بیشک آپ کا پروردگار ان کے لئے بهت وسیع مغفرت والا هے"ـ[4] دوسرے الفاظ میں، خدا وند متعال فرماتا هے که اگر آپ گناهان کبیره کو ترک کرو گے تو خداوند متعال، بعض اوقات مرتکب هونے والے آپ کے گناهان صغیره کو بخش دیتا هےـ لیکن یه اس صورت میں هے که گناه صغیره کو انجام دینے میں اصرار نه کیا جائے اور اس کى تکرار نه کى جائےـ[5]
روایات کى روشنى میں گناهوں کى تقسیم:
اهل بیت اطهار علیهم اسلام کى روایتوں میں گناهوں کو گناهان کبیره(بڑے گناه) اور گناهان صغیره(چھوٹے گناه)میں تقسیم کیا گیا هےـ حضرت امام صادق علیه اسلام قرآن مجید کى آیات سے استفاده کرتے هوئے مندرجه ذیل گناهوں کو گناهان کبیره جانتے هیں:[6]
1 خداوند متعال کى رحمت سے نا امید هوناـ (یوسف/78)
2 خداوند متعال کى تدبیر سے بچ نکلنے کا خیال ـ (اعراف/99)
3 والدین کى طرف سے عاق هوناـ (مریم/32)
4 مومن انسان کا قتل کرناـ (نساء/93)
5 پاک دامن عورت پر بدکارى کا اتهام لگاناـ (نور/23)
6 یتیم کا مال کھاناـ (نساء/10)
7 جهاد سے بھاگنا ـ (انفال/16)
8 سود خوارى ـ (بقره/277)
9 زناـ (فرقان/69ـ68)
10 خیانت ـ (آل عمران/161)
11 واجب زکواۃ کو ادا نه کرناـ (توبه/35)
12ـ سحر و جادوـ (بقره/27) [7]
دنیوى کیفر کى روشنى میں گناهوں کے درجات:
دنیوى سزا و کیفر کى روشنى میں بھى گناهوں کے مختلف درجات هیںـ بعض گناهوں، جیسے قتل عمد، زنائے محصنه وغیره کى سزا موت هے اور بعض دوسرے گناهوں، جیسے: زنائے غیر محصنه، شراب خوارى وغیره کى سزا تازیانه هے اور...[8] ـ بعض گناهوں، جیسے روزه نه رکھنے، وعده خلافى اور قسم توڑنے وغیره کى سزا جرمانه جیسے روز رکھنا اور حاجتمندوں کو کھنا کھلانا معین کیا گیا هےـ[9]
لیکن زناکے گناه کو موسیقى کے گناه سے مواز نه کرنے کے سلسله میں قابل ذکر بات هے که زنا کا گناه کئى مرتبه حرام موسیقى سننے کے گناه سے زیاده هے، چونکه پیغمبر اکرم (ص) سے روایت نقل کی گئى هے که آپ(ص) نے فرمایا:" غنا (موسیقى) زنا کى سیڑھى هے"ـ اور امام صادق علیه اسلام فرماتے هیں:" جس گھر میں غناه هو وه فساد و فحشا سے محفوظ نهیں هےـ"[10] مذکوره دو نورانى روایتوں میں غنا اور موسیقى سننے کو زنا کے گناه کا مقدمه جانا گیا هےـ لیکن هم نے کوئى ایسى دلیل نهیں پائى جس کے مطابق زنا کى سزا، حرام موسیقى سننے کى سزا سے 34 برابر زیاده هو
آخرى نکته یه هے که اگرچه اسلامى تهذیب وثقافت میں گناهوں کے مختلف مراتب هیں، لیکن جاننا چاهئے که گناه جس قدر بھى چھوٹا هو، خداوند متعال کى ذات اقدس کے مقابل میں بڑا هےـ امام باقر علیه اسلام فرماتے هیں :" گناه کے چھوٹے هونے کو مد نظرنه رکھنا، بلکه یه دیکھنا که کس کے سامنے گناه انجام دینے کى جرات کرتے هو؟!"[11]
[1] عصمت انبیاء و رسولان، علامھ عسکرى،ص 78.
[2] لقمان.13.
[3] نساء، 116
[4] نجم، 32
[5] النھیکیی عن عمار بن مروان القندی عن عبدالله بن سنان عن ابی عبدالله قال لا صغیره مع الاصرار ولا کبیرۃ مع الا ستغفار.
[6] وسائل الشیعۃ ج:15 ص: 319، باب تعیین الکبائر التى یحب اجتنابھا، حدیث2.
[7] یکصد و پنجاه موضوع از قرآن کریم، اکبر دھقان، ص 210ـ212.
[8] دفعه نمبر 83، "اسلام کے تعزیراتى قوانین".
[9] توضیح المسائل مراجع، احکام روزه عھد و....
[10] پرسش ھا و پاسخ ھا، ص 22:احکام موسیقى، ص32.
[11] بحار الانوار، ج77، ص168; یکصد وپنجاه موضوع از احادیث اھل بیت(ع)، اکبر دھقان، ص 247.