Please Wait
9906
لیکن کربلا کے حادثه میں هم مشاهده کرتے هیں که امام حسین علیه السلام صبر و شکیبائى کا نمونه هیں اور انبیاء حتى اولوالعزم بیغمبروں (علیهم السلام) کى بی نسبت افضل هونے کے باوجود اپنے بیٹے على اکبر (ع) کے جنازه پر فرماتے هیں : " یا على ! على الدنیا بعدک العفى " " یعنى اے على ! تیرے بعد اس دنیا پر حیف هو!"ـ
اگر مذکوره آیه شریفه میں قرآن مجید کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان (ع) کا قول و فعل ایک فضیلت هے تو اس قول و فعل میں امام حسین علیه السلام کے بارے میں تناقض کى کیسے توجیه کى جاسکتى هے؟ مهربانى کرکے مناسب عقلى و روائى استدلال کے ساتھـ جواب دیجئے ـ
اگرچه حضرت سلیمان علیه السلام کا یه بیان ان کى روحانى عظمت اور خداوند متعال کى لازوال رحمت پر ان کے یقین کے مقام کى حکایت کرتا هے جو عام انسانوں کى به نسبت کافى بلند و برتر مقام هے، لیکن امام حسین علیه السلام کے خاص حالات کى به نسبت قابل موازنه نهیں هے ـ چونکه یه آیات اولاً : ایک طرح سے اس بات کى حکایت کرتى هیں که حضرت سلیمان علیه السلام ایک لمحه کے لئے لغزش (البته ترک اولىٰ) سے دوچار هوئے هیں، اور فرزند کو کھو دینا ایک قسم کی سزا شمار هوتى تھى ـ ثانیاً : جس فرزند سے حضرت سلیمان علیه السلام محروم هوچکے تھے وه ناقص الخلقت تھا اور تولد کے دوران هى فوت هو چکا تھا، عام طور پر ایسے فرزند سے محروم هونا انسان کے جذبات مجروح هونے کا سبب نهیں بنتا هے ـ امام حسین علیه السلام نے عاشور کے دن یه بیان اس وقت زبان مبارک پر جارى فرمایا که اولاً :آپ (ع) اس وقت کمال و معرفت اور خدا کے عشق کے عروج پر تھے ثانیاً : خداوند متعال کى راه میں ایک ایسے فرزند کو هدیه کے طور پر پیش کر چکے تھے جو جسمى ، اخلاقى اور گفتارو کردار کے لحاظ سے شبیه پیغمبر (ص) تھے ـ اس قسم کے فرزند کوکھو دینے پر اس دل خراش حالت میں گریه و زارى کرنا هر سنگ دل کے قلب کو بھى متاثر کرکے رکھـ دیتا هے کیونکه، اولاً :یه مکمل طور پر ایک فطرى عمل هے ـ ثانیاً: امام(ع) کے وجودى جامعیت کى حکایت هے که آپ (ع) عین شجاعت اور مبارزه و جهاد کى حالت میں جذبات اور محبت بھرے ایک دل کے مالک هیں ـ ثانیاً : یه جمله امام حسین علیه السلام کى جاں نثارى کے کمال کى حکایت کرتا هے که قیمتى ترین چیز کو خدا کى راه میں پیش کرتے هیں ـ
اس لئے، امام حسین علیه السلام کا یه بیان رحمت الٰی سے نه صرف یاس و ناامیدى نهیں هے بلکه برتر اور پائدار اخروى زندگى کے بارے میں امید و ایمان سے بھرا هے ـ
سوره " ص " کى آیت نمبر 34 اور 35 [1]کى شان نزول کے بارے میں تفسیر اور تاریخ کى کتابوں میں بهت سى حکایتیں اور روایتیں نقل کى گئى هیں که ان میں مناسب اور معقول ترین روایت حسب ذیل هے :[2]
حضرت سلیمان علیه السلام کى تمنا تھى که خداوند متعال انھیں چند شجاع اور بهادر فرزند عطا کرے تاکه وه حکومت چلانے خاص کر دشمنوں سے جهاد کرنے میں ان کى مدد کریں ـ ان کى کئی بیویاں تھیں انهوں نے اپنے آپ سے کها: " میں ان کے ساتھـ مباثرت کروں گا، تاکه مجھے کئى فرزند ملیں اور میرے مقصد میں میرى مدد کریں گے ـ لیکن چونکه یهاں پر حضرت سلیمان علیه السلام نے غفلت کى اور " انشاء الله " نه کها ـ یه وه جمله هے جو انسان کے لئے هر حالت میں خدا پر بھروسه کرنے کى علامت هے، اس لئے ان کى بیویوں میں سے کسى ایک نے بھی کسى فرزند کو جنم نهیں دیا، صرف ایک ناقص الخلقت فرزند بے روح جسد کے مانند پیدا هوا، اسے لاکر ان کى کرسى پر رکھدیا گیا ! حضرت سلیمان علیه السلام انتها کی فکر و پریشانى میں غرق هوگئے، اور کافى بے چین هوگئے، کیوں انهوں نے ایک لمحه کے لئے خداوند متعال سے غفلت کى تھی اور اپنى طاقت پر بھروسه کیا تھا، انهوں نے توبه کى اور بارگاه الهىٰ میں پلٹ کر آگئے " ـ[3]
یه آیات اولاً ایک جهت سے اس بات کى حکایت کرتى هیں که حضرت سلیمان علیه السلام ایک لمحه کے لئے لغزش (البته ترک اولى) سے دوچار هوئے هیں ـ فرزند سے محروم هونا ایک قسم کى سزا شمار هوتى تھى ـ ثانیاً : جس فرزند سے محروم هوئے تھے، وه ناقص الخلقت تھا اور پیدائش کے وقت هى فوت هو چکا تھا، عام طور پر ایسے فرزند سے محروم هونا انسان کے جذبات مجروح هونے کا سبب نهیں بنتا هے ـ امام حسین علیه السلام نے عاشور کے دن یه بیان اس وقت زبان مبارک پر جارى فرمایا که اولاً آپ علیه السلام کمال و معرفت اور خدا کے عشق کے عروج پر تھے، ثانیاً :آپ (ع) کے فرزند جسمانى، اخلاقى اور گفتار کے لحاظ سے شبیه بیغمبر (ص) تھے ـ ایک ایسے فرزند تھے جو اپنے امام زمانه پر قربان هوئے اور میدان کا رزار کى طرف قدم بڑھاتے هوئے فرمایا ; " میں على بن حسین بن على هوں ـ میں ایک ایسے گروه سے تعلق رکھتا هوں جن کاجد پیغمبر اسلام (ص) هیں ـ خدا کى قسم زنازاده کا بیٹا همارے درمیان حکومت نهیں کرے گا ـ میں تم پر اس نیزه سے اس قدر وار کروں گا که اس کى نوک مڑ جائے ـ میں تم پر تلوار سے وار کروں گا اور اپنے باپ کى حمایت کروں گا میں تم پر ایک هاشمى اور علوى جوان کے مانند وار کرتا هوں ـ ـ ـ[4] اس قسم کے فرزند کو کھو دینے پر اس دل خراش حالت میں گریه وزارى کرنا هر سنگ دل کے قلب کو بھى متاثر کرکے رکھـ دیتا هے، کیونکه، اولاً : یه مکمل طور پر ایک فطرى عمل هے، ثانیاً ; امام کے وجودى جامعیت کى حکایت هے که عین شجاعت، مبارزه اور جهاد کى حالت میں ایک جذبات اور محبت بھرے دل کے مالک هیں، کیونکه آپ (ع) تمام انسان کمالات کے سرچشمه هیں اور مهر و محبت کمالات انسانى میں ایسے کمال هے ـ چنانچه نبى اکرم صلى الله علیه وآله وسلم نے اپنے بیٹے حضرت ابراھیم (ع) کى رحلت پر رویا هے اور جب آنحضرت صلى الله علیه وآله وسلم سے رونے کى علت پوچھى گئى تو جواب میں فرمایا :" یه گریه و زارى نهیں هے، بلکه رحمت هے جو ترحم نه کرے، اس پر کوئى رحم نهیں کرے گا" ـ[5] فاطمه زهرا سلام الله علیها بھى اپنے والدمحترم نبى اکرم صلى الله علیه وآله وسلم کى قبر پر سوز و گداز کے عالم میں فریاد بلند کرتے هوئے فرماتى تھیں :" ابا جان !( آپ صلى الله علیه وآله وسلم) چلے گئے اور آپ (صلى الله علیه وآله وسلم) کے جانے کے بعد دنیا نے دن کى روشنى کو هم سے چھین لیا اپنى تعمتوں اور خوشیوں سے همیں محروم کیا، دنیا آپ کے حسن و جمال سے منور تھى، لیکن اب دن کا اجھالا رات کى تاریکى میں تبدیل هو چکا هے اور اس کا خشک و تر رات کى اندھیرى کى خبر دیتا هے "ـ[6]
ثالثاً ; حضرت امام حسین علیه السلام کا اپنے مجروح و بے روح بیٹے کے جسم پر یه جمله : " یا على ! على الدنیا بعدک العفى "، یعنى اے على تیرے بعد اس دنیا پر حیف هو! امام کی نظروں میں حضرت على اکبر (ع) کے مقام و منزلت کى نشانى هے على اکبرکا وجود امام کے لئے آپ (ع) کى زندگى کے برابر تھا ـ
رابعاً: یه جمله امام حسین علیه السلام کى جاں نثارى کے کمال کى حکایت کرتا هے که قیمیتى ترین چیز کو خدا کى راه میں پیش کرتے هیں ـ
اس کے علاوه، جو شخص اپنى اور اپنے فرزندوں کى مکمل صحت و سلامتى کى حالت میں خد اکى خوشنودى کے لئے سب کچھـ اس کى راه میں لٹا دے، کیا وه خدا کى رحمت کا زیاده امیدوار هے یا وه شخص جس نے اپنےا یک ناقص الخلقت فرزند کو کھو دیا هے اور اس حالت میں خداوند متعال سے دنیا کى سلطنت کا مطالبه کرتا هے ؟ اگرچه خضرت سلیمان علیه السلام کا یه بیان بھى ان کى روحانى عظمت اور خداوندمتعال کى لا زوال رحمت پر ان کے یقین کے مقام کى حکایت کرتا هے، جو عام انسانوں کى به نسبت کافى بلند و برتر مقام هے، لیکن امام حسین علیه السلام کے خاص حالات کى به نسبت قابل موازنه نهیں هے ـ اس بنا پر امام (ع) کا یه بیان نه صرف رحمت الهىٰ سے یاس و ناامیدى کى حکایت نهیں کرتا هے بلکه اخروى اور برترزندگى کى به نسبت ان کى بلند امید وایمان کى حکایت کرتا هےـ اس کے علاوه امام حسین علیه السلام کا یه جمله اس زمانه کے نامناسب حالات کى حکایت کرتا هے ـ امام حسین علیه السلام کى ایک دوسرى فرمائش سے ان کى دینوى زندگى سے بیزارى کى علت معلوم هوتى هے، جب آپ (ع) نے کربلا کى راه میں فرمایا : " سچ مچ دنیا نے اپنا چهره بدل دیا هے اور یه چهره ناقابل شناخت بن گیا هے، اس کى بھلائى نابودى سے دوچار هوئى اور نیکى اور بھلائى میں سے ، برتن کى ته میں بچى رطوبت کے مانند اور مصیبت سے بھرى زندگى اور چراگاه میں بے فائده اور بیمارى پھیلانے والى گھاس کے مانند کچھـ نهیں بچا هے، کیا آپ نهیں دیکھـ رهے هو که حق پر عمل نهیں هورها هے اور باطل کو چھوڑا نهیں جارها هے، ان حالات میں مومن کو حق پهنچتا هے که وه موت اور خدا کى ملاقات کى آرزو کرے ـ ـ ـ بیشک لوگ دنیا پرست بن گئے هیں اور دین ان کى زبان کى نوک سے نیچے نهیں اترا هے ـ ـ ـ[7] "
ایک دوسرى جگه پر امام حسین (ع) دنیا کى زندگى سے بیزارى کى علت بے احترامى اور مردان الهىٰ کى شهادت جانتے هیں ـ
امام زین العابدین علیه السلام فرماتے هیں : " جهاں جهاں پر هم نے پڑاو ڈالا اور دوباره رخت سفر باندھا ، میرے والد گرامى یحیىٰ بن ذکریا (ع) کى شهادت کا ذکر فرماتے تھے، من جمله ایک دن فرمایا : خدا کے هاں دنیا کى ذلت کا یه عالم هے حضرت یحیى کے سراطهر کو تن سے جدا کیا گیا اور تحفه کے طور پر بنى اسرائل کى ایک زناکار عورت کے پاس بھیجا گیا ـ[8] اس طرح حضرت امام حسین علیه السلام نے حضرت على اکبر علیه السلام کى شهادت کے موقع پر فرمایا " کس قدر انهوں نے خداوند متعال اور نبى اکرم صلى الله علیه وآله وسلم کى شان میں گستاخى اور بے احترامى کى هے ؟"[9]
[1] " اور هم نے سلیمان کا امتحان لیا جب ان کى کرسى پر ایک بیجان جسم ڈال دیا تو پھر انهوں نے خدا کى طرف توجه کى اور کها پروردگار مجھے معاف فرما اور ایک ایسا ملک عطا فرما جو میرے بعد کسى کے لئے سزاوار نه هو که تو بهترین عطا کرنے والا هے" ـ (ص/34ـ35).
[2] ان دو آیات کى تفسیر اور حضرت سلیمان علیه السلام کے ترک اولىٰ اور اس سلسله میں هوئے سوالات کے بارے میں ملاحظه هو المیزان عربى، ج 17، ص 204، تفسیر نمونھ، ج19 ، ص 282; راه راھنماشناسى، ص 174، استاد مصباح یزدى .
[3] تفسیر نمونه، ج 19، ص 281.
[4] بحارالانوار، ج 45،ص 43.
[5] وسائل الشیۃ ، ج 2، ابواب دفن، باب 17، ص 922، روایت 8.
[6] بحارالانوار، ج 43، ص 174ـ 180.
[7] تحف العقول، سخنان کوتاه امام حسین (ع)، ص 427.
[8] بحارالانوار، ج 45،ص 299 سافٹ ویر گنجینھ روایات نور; ملاحظه هو : " پرسش ها و پاسخ هاى دانشجوی"، شماره 13، نهاد نمایندگى مقام معظم رھبرى در دانشگاه ھا، مرکز فرھنگى ، اداره مشاوره و پاسخ.
[9] بحارالانوار، ج 45،ص 44.