Please Wait
14057
ایسا نھ ھو کھ ھم ان ۷۲ فرقوں میں سے ایک ھوں جو گمراه ھوئے ھیں؟ اس سلسلھ میں ھم کیسے اطمینان حاصل کرسکتے ھیں؟
شیعھ مذھب کی برتری کا سبب اس کا "حق" ھونا ھے اور دین حق ھر زمانھ میں خصوصا ایک ھی دین ھے اور دوسرے ادیان یا بنیادی طورپر باطل و بے بنیاد ھیں یا معدوم و منسوخ ھوچکے ھیں اور آج شریعت حق ، دین اسلام ھے اور خالص اور سچا اسلام مذھب تشیع میں جلوه گر ھے۔ یھ صرف شیعھ مذھب کی تعلیمات ھی ھیں جو خالص محمدی اسلام کا مظھر ھوسکتی ھین۔
مذکوره نکتھ کے بارے میں تاریخی شواھد اور دینی کتابین تائید کرتی ھیں اور یھ خصوصیت وھابیت میں نھین پائی جاتی ھے۔
دوسرے مذاھب کی بھ نسبت شیعھ مذھب کی برتری اس کے "حق" ھونے کے سبب ھے اور دین حق ھر زمانھ میں خاص طور پر ایک دین ھے۔
ھر زمانھ میں خداوند متعال کا ایک ھی دین ھوتا ھے اور اس کے علاوه ھر دین یا بنیادی طر پر باطل اور جھوٹا ھوتا ھے یا منسوخ و معدوم شده۔
آج تک جتنے بھی ادیان الھی اور مذاھب آسمانی انسان کے لئے نازل ھوئے ھیں، ان کی تعداد طولی ھے نھ عرضی ، اس معنی میں کھ نیا دین پھلے دین کا منسوخ اور مکمل کرنے والا ھوتا ھے اور نئے دین کے آنے کے بعدپھلا دین زائد المیعاد ھوتا ھے اور اس کی مقبولیت ختم ھوجاتی ھے۔ نیا دین پھلے والے دین کا جانشین بن جاتا ھے۔ سب پر واجب ھواتا ھے کھ نئے دین کی پیروی کرین اور اس پر ایمان لائیں۔ اسی لئے دین کی مقدس کتابوں اور نصوص میں ، نئے دین پر ایمان نھ لانے والوں کو " کافر" کھا گیا ھے۔
اسلام انسانوں کے لئے بھیجا گیا آخری اور مکمل ترین دین ھے اور خداوند متعال اسلام کے علاوه کسی اور دین کو قبول نھین کرےگا:"ان الدین عند اللھ الاسلام " [1] بیشک دین ، خدا کے نزدیک صرف اسلام ھے " ، " ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منھ " [2] " جو بھی اسلام کے علاوه کسی دین کو منتخب کرے گا اسے قبول نھیں کییا جائے گا" ۔
افسوس کا مقام ھے کھ مسلمان بھی سابقھ اقوام اور ادیان کے پیروکاروں کے مانند گوناگوں مذاھب میں بٹ گئے ھیں۔ یھ سب مذاھب کسی صورت میں ایک ھی وقت میں حق پر نھیں ھوسکتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے فرمایا: " ان امتی ستفرق بعدی علی ثلاث و سبعین فرقۃ، فرقۃ منھا ناجیۃ واثنتان و سبعون فی النار" [3] میرے پیروکار، میرے بعد تهتر فرقوں میں بٹ جائیں کے ، ان میں سے صرف ایک فرقھ نجات پائے گا اور باقی بھتر فرقے جھنمی ھوں گے۔ اسلام کے مسالک میں مسلک حق اورنجات یافتھ فرقھ شیعھ اثنا عشری ھے ، اور وھی سچا اور حقیقی اسلام (تشیع) ھے۔ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے فرمایا: " ایھا الناس انی ترکت فیکم ما ان اخذتم بھ لن تضلوا ، کتاب اللھ و عترتی اھل بیتی " [4] لوگو! میں نے تمھارے درمیان امانت کے طور پر وه چیز چھوڑ دی ھے جسے اگر تم سنبھالے رھوگے تو ھرگز گمراه نھیں ھوگے ۔ وه چیز ھے خدا کی کتاب اور میری عترت ( یعنی ) اھل بیت علیھم اللسلام ۔
پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے موثق اور جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری نقل کرتے ھیں:" سمعت النبی انھ قال : الا ان مثل اھل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح فی قومھ ، من رکبھا نجی و من تخلف عنھا غرق " [5]
(جان لو)، میں نے پیغمبر سے سنا کھ آپ (ص)نے فرمایا: آپ لوگوں کے درمیان میرے اھل بیت کی مثال قوم نوح کے لئے کشتی نوح کے مانند ھے جو اس کشتی میں سوار ھوجائے گا نجات پائے گا او جوب بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا غرق ھوجائے گا ۔
مذھب تشیع کی بنیا د ، توحید، عدل ، نبوت ، امامت اور قیامت پر ھے۔ اور شیعھ ، پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے جانشین کے عنوان سے باره معصوم اماموں کا قائل ھے۔ ان میں پھلے حضرت علی علیھ السلام اور آخری حضرت مھدی (عج) ھیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے منقولھ روایتوں میں باره اماموں کی تعداد بتائی گئی ھے حتی کھ ان کے ناموں کی بھی تصریح کی گئی ھے۔ ایک دن عبد اللھ بن مسعود لوگوں کی ایک جماعت میں بیٹھے تھے کھ ایک صحرائی عرب نے آکر ان سے پوچھا کھ آپ لوگوں میں سے کون عبدا للھ بن مسعود ھیں؟ عبدا للھ بن مسعود نے جواب دیا: " میں ھوں" عرب نے پوچھا : " ھل حدثکم نبیکم کم یکون بعده من الخلفاء ؟ قال : نعم ، اثنا عشر ، عدد نقباء بنی اسرائیل " [6]
" کیا آپ کے پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے ( اپنے بعد ) اپنے جانشینوں کی تعداد آپ سے بیان کی ھے ؟ انھوں نے جواب میں کھا؛ جی ھاں ، باره افراد ، بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے برابر"
تشیع کی حقانیت کے بارے میں ھماری دلیل قرآن و سنت ھے ، خدا وند متعال نے ھمیں حکم دیا ھے کھ ، خدا، رسول خدا اور اولی الامر کی پیروی کریں اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی تاکید و تصریح کے مطابق اولی الامر وھی شیعوں کے باره امام ھیں ۔ قرآن مجید کی بھت سی آیات میں امامت و ولایت کے مسئلھ میں اشاره ھوا ھے ۔ مثال کے طور پر مندرجھ ذیل آیات قابل ذکر ھیں:
" و انذر عشیرتک الاقربین " ، انما ولیکم اللھ ورسولھ و الذین یقیمون الصلاۃ و یؤتون الزکاه وھم راکعون" ، یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتھ " ،" الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا"،" انما یرید اللھ لیذهب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا" وغیره
تاریخ اور روایات کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و ٓآلھ وسلم بھی امیر المؤمنین حضرت علی علیھ السلام کو اپنے وصی و جانشین کے عنوان سے مسلسل یاد فرماتے تھے ، طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ھے کھ جب آیھ شریفھ " و انذر عشیرتک الاقربین" نازل ھوئی تو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے اپنے رشتھ داروں سے فرمایا: خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ھے کھ میں تمھیں اس کی طرف دعوت دون ، پس جو تم میں سے اس امر میں میری مد کرے گا وه میرا بھائی اورجانشین ھوگا ِ علی علیھ السلام نے فرمایا: اے رسول خدا صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم میں اس راه میں آپ کی مدد کروں کا " پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے علی علیھ السلام کی گردن پر ھاتھه رکھه کر سب سے فرمایا: بیشک تم لوگوں میں یھ (علی) میرے بھائی ، میرے وصی اورجانشین ھیں ، ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا ' پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے رشتھ دار ھنستے ھوئے کھڑے ھوگئے اور تمسخر کی حالت میں ابو طالب سے کھا: " انھوں نے تمھیں حکم دیا ھے کھ تم اپنے بیٹے کے تابعدار بنو اور ان کی اطاعت کرو" [7]
پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال ، حجۃ الوداع سے واپسی پر ، غدیر خم نامی علاقھ میں ، حضرت علی ابن ابیطالب علیھ السلام کو باضابطھ طورپر مسلمانوں کے امام اور حاکم کے عنوان سے منصوب اور متعارف فرمایا اور تمام حاضرین کو حکم دیا کھ امیر المؤمنین کی حیثیت سے حضرت علی علیھ السلام کی بیعت کریں اور آنحضرت (ص) نے اس دن یھ مشھور جملھ ارشاد فرمایا: " من کنت مولاه فھذا علی مولاه" جس کا میں مولا ( فرمانروا) ھوں اس کے علی بھی مولا اور فرمانروا ھیں " یھ حدیث اسلام کی متواتر احادیث میں سے ایک مشھور حدیث ھے۔
یھ شیعھ مذھب کی دوسرے مذاھب پر دین کے داخلی نقطھ نظر اور آیات و روایت کے استناد سے برتری اور حقانیت کا ایک خلاصھ تھا۔ البتھ دوسرے زاویوں سے بھی اس مسئلھ پر بحث و تحقیق کی جاسکتی ھے اور شیعھ مذھب کی تعلیمات اور غیر شیعھ مذھب کی تعالیما ت کا تقابلی جائزه لے کر شیعھ مذھب کی برتری کا ثابت کیا جاسکتا ھے ، لیکن ھم اس بحث کی وکالت کو کسی دوسرے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ھیں۔
تا ھم وھابیت کے بارے میں کافی ھے کھ سید مصطفی رضوی کی کتاب " پاکستان کے سیاسی و مذھبی اطلاعات" کے اس اقتباس پر اکتفا کریں کھ " وھابی ، اسلام کے تمام فرقوں کو من جملھ شیعھ و سنی ، مشرکوں ، کافروں اور بت پرستوں کے زمرے میں قرار دیتے ھیں۔ نیز حاجت مانگنے اور حضرت پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور ائمھ اطھار علیھم السلام کی قبروں کی زیارت کو ایک قسم کی بدعت و بت پرستی جانتے ھوئے اسے احرام ما نتے ھیں۔ وه نماز کے علاوه پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اور ائمھ اطھا علیھم السلام کوسلام کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا جائز نھیں سمجھتے ھیں اور آنحضرت (ص) کی وفات کو ان کی تعظیم و تکریم کا خاتمھ جانتے ھیں۔ ائمھ اطھار علیھم السلام اور اولیائے دین کی قبروں پر گنبد اور بارگاه تعمیر کرنا بدعت جانتے ھیں اور ان کا اعتقاد ھے کھ حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و الھ وسلم ایک انسان تھے اور ان میں بھی ایک انسان میں پائی جانے والی کوتاھیاں اورکمزوریان موجود تھیں۔ وه وفات پاچکے ھیں اور ھمارے اور آج کی دنیا کے بارے میں کوئی خبر نھیں رکھتے ھین ، لھذا ان کی قبر مبارک کی زیارت حرام ھے" [8]
اس کا فیصلھ ھم قارئین کرام کی عقل سلیم پر چھوڑتے ھیں کھ کیا یھ تعلیمات فطرت اورقرآن مجید کے مطابق ھوسکتی ھیں؟ کیا یھ وھی محبت اھل بیت علیھم السلام ھے جسے قرآن میں رسالت کا اجر شمار کیا گیا ھے؟ [9] کیا قرآن مجید میں یھ بیان نھیں ھوا ھے کھ " شھداء زنده ھیں اور اپنے پروردگار کے هاں رزق پاتے ھیں" [10] اور کیا پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کا مقام شھداء سے کم تر ھے ؟!
اگر اس سے زیاده معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ مزید بحث کرنا چاھتے ھیں تو ھمارے ساتھه دوباره خط و کتابت کیجئے ۔
[1] سوره آل عمران / ۱۹۔
[2] سوره آل عمران / ۸۵۔
[3] الابانۃ الکبرای ، ابن بطۃ ، ج ۱، ص ۳ ، خصال ِ ص ۵۸۵۔
[4] کنزل العمال ، ج ۱ ، ص ۴۴، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ۔
[5] المستدرک علی الصحیحین ، ج ۳، ص ۱۵۱۔
[6] خصال ، ص ۴۶۷۔
[7] تاریخ طبری ، ج ۲ ، ص ۳۲۰۔ طبع مصر ؛ کامل ابن اثیر ، ج ۲ ، ص ۴۱، طبع بیروت۔
[8] سید مسطفی رضوی ، اطلاعات سیاسی و مذھبی پاکستان ، ص ۶۳۔۔ ۶۴۔
[9] " قل لا اسئلکم علیھ اجرا الا المودۃ فی القربی" ، سوره شوری/ ۲۳۔
[10] سوره آل عمران / ۱۶۹۔