Please Wait
9106
لغت میں اسلام کے معنی تسلیم اور سر خم کرنے کے ھیں ، اور دین اسلام کو اس لئے اسلام کھا گیا ھے، کھ اس کا کلی پروگرام خدا کے مقابلے میں انسان کا سراپا تسلیم ھونا ھے، اور اس تسلیم کے اثر میں انسان خدا کے علاوه کسی اور کی عبادت اور پرستش نھ کرے۔ اور خدا کے علاوه کسی اور کی فرمان برداری نھ کرے۔
دین اسلام حقیقت میں سب ادیان الھی کا جوھر ھے جو ان کی بھ نسبت جامع طور پر ظاھر ھوا ھے،اسلام دوسرے ادیان کے مانند تین پھلو ، عقائد ، احکام اور اخلاق پر مشتمل ھے۔
عقائد: خدا کی وحدانیت اور عدالت ، نبوت اور امامت اور قیامت پر اعتقاد رکھنے کا نام ھے۔
متعدد آیات اور روایات کے استناد سے اسلام کی حقیقی تجلی اھل بیت کے مذھب (تشیع ) میں ظاھر ھوئی ھے۔ شیعوں کا یھ عقیده ھے کھ حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے اپنے بعد ، امت کو حیرت اور شک میں نھیں چھوڑا بلکھ دین اسلام کی پاسبانی کیلئے خداوند متعال کے حکم کے مطابق باره ائمھ معصومین ( علیھم السلام) کو اپنے جانشین کے طورپر لوگوں میں کو پھچنوایا۔ اُن میں سب سے پھلے حضرت علی علیھ السلام اور آخری حضرت مھدی عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف ھیں ۔ جو اس وقت پرده غیب میں ھیں اور ظھور فرما کر ظلم و ستم اور جرم کا خاتمھ کریں گے اور دنیا کو عدالت اور انصاف سے بھر دیں گے۔
احکام: اسلام کے نقطھ نظر میں جو کام بھی مکلَّف انجام دیتا ھے وه واجب ، حرام ، مستحب ، مکروه اور مباح کے دائرے سے باھر نھیں۔
احکام کے دائرے کو فروع دین ، اور دینی مناسک سے تعبیر کرتے ھیں جو ( نماز، روزه ، حج ، زکات ، خمس ، جھاد اور امر بالمعروف ، نھی از منکر ، تولی اور تبری ۔۔ ) کو شامل ھے۔
اخلاق: اخلاق بھی عقائد اور احکام کے مانند ان امور میں سے ھے۔ جس میں اسلام نے انسانیت کیلئے بھترین دستورکو بیان کیا ھے۔ جو فطرت اور خلقت کی رفعتوں کے مطابق ھے اور اس کا نتیجھ دنیاوی اور اخروی سعادت کے علاوه اور کچھه نھیں ھے۔
دین اسلام آخری اور سب سے کامل دین ھے۔ جو خداوند متعال کی طرف سے اس کے پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے ذریعے انسان کی سعادت اور ھدایت کیلئے آیا ھے ۔ وه دین جس کی خوشخبری گذشتھ انبیاء نے دی ھے اور اُس کے پیغمبر(ص) کے آنے کی بھی خبر دی ھے ۔ قرآن کریم جو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کا ابدی معجزه ھے، میں ارشاد ھے : گزشتھ انبیاء نے پیغمبر اسلام ( صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم ) کے ظھورکی خوشخبری دی ھے حتی کھ اھل کتاب بھی پیغمبر اسلام کے ظھور کا انتظار کرتے تھے" [1] خصوصا حضرت عیسی بن مریم کے قول سے نقل کرتا ھے :" کھ انھوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے ظھور کی بشارت دی تھی اور آنحضرت ( ص) کے نام مبارک کو " احمد" بیان کیا تھا۔ [2]
اسلام بھی دوسرے ادیان کے مانند اپنی تعلیمات کو تین شعبوں عقائد ، اخلاق اور احکام میں بیان کرتا ھے، لیکن اس فرق کے ساتھه کھ سبھی شعبوں میں باقی ادیان کی بھ نسبت سب سے زیاده جامع ھے ۔ کیوں کھ صرف اسلام ھی ایسا دین ھے جو خداوند متعال کی جانب سے حضرت آدم علیھ السلام سے لیکر حضرت خاتم النبیین صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم تک سبھی انبیاء پر نازل ھوا اور جو کچھه بھی ابراھیم علیھ السلام کے مصحف ، داود علیھ السلام کی زبور، موسٰی کلیم علیھ السلام کی توریت ، اور عیسی مسیح علیھ السلام کی انجیل میں آیا ھے وه جامع اور کامل صورت میں قرآن مجید میں سما گیا ھے۔ [3] یھ دین ھر طرح کی تحریف سے پاک رھا ھے۔
عقائد: خدا کی وحدانیت ، عدالت ( خدا کا عادل ھونا ) ، نبوت ( انبیاء کو انسان کی ھدایت کیلئے بھیجنا ) امامت اور معاد سے عبارت ھے۔
اعتقادی پھلو میں ایک مسلمان کو خدا کی وحدانیت پر شھادت دینے کے علاوه حضرت رسول اکرم محمد مصطفی صلی اللھ علیھ آلھ وسلم کی نبوت اور رسالت کی بھی شھادت دینی ھے، ورنھ وه مسلمان نھیں ھوگا۔ البتھ کلمھ شھادتین کا لازمھ بھی سب انبیاء کی نبوت پر ایمان اور معاد اور قیامت پر اعتقاد ھے۔ اس کے ساتھه ساتھه دین اسلام کی خاتمیت، ملائکھ ، غیب اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی ھر ایک گفتار کے سچ ھونے پر بھی اعتقاد شامل ھے۔ اس کے علاوه ضروریات دین پر اعتقاد رکھنا ھے ، اور ان میں سے کسی ایک پر اعتقاد نھ رکھنا اسلام کے دائرے سے خارج ھونے کا سبب بنتا ھے ، کیونکھ اسلام فطرت اور عقل کا دین ھے اس کے اعتقادات میں تقلید کی کوئی گنجائش نھیں ھے اور وه انسان سےچاھتا ھے کھ تحقیق اور دلیل کے ساتھه اپنے دین کا انتخاب کرے۔ [4]
احکام کے دائرے میں یھ کھنا ضروری ھے که جس عمل کو مکلف انجام دیتا ھے واجب ، حرام ،مستحب ، مکروه ، اور مباح حکم سے خارج نھیں ھے ، ان احکام کو جنھیں اسلام نے مکلفین کے اعمال کیلئے قرار دیئے ھیں، فروعات دین کھتے ھیں جو نماز،روزه ، حج ، زکات ، خمس ، جھاد ، امر بھ معروف، نھی از منکر تولی اور تبری کو شامل ھے ان احکام پر عمل کرنا اور ان کا پابند رھنا انسان کی سعادت کا ضامن ھے [5] ۔ عقلی حکم کے مطابق ، ھر شخص، یا دین کے احکام میں خود ماھر اور صاحب نظر ھو تاکھ وه وه اپنی رای اور نظر کے مطابق عمل کرے یا وه کسی اور شخص جس کے اندر یھ خصوصیات ھوں ( مجتھد جامع الشرائط ) کی طرف رجوع کرے [6]
اخلاق کے شعبھ میں بھی مذکوره دونوں شعبوں کے مانند اسلام میں انسانیت کیلئے بھترین اخلاقی دستور موجود ھے۔ اسلام میں اخلاقیات کی اھمیت اتنی زیاده ھے کھ پیغمبر گرامی اسلام نے اپنی بعثت اور رسالت کا مقصد مکارم اخلاق کو کمال تک پھنچانا بیان کیا ھے۔
چونکھ اس مختصر گفتگو میں اسلام کو پھچنوانا اور اس کے امتیازات اور خصوصیات کو بیان کرنا ممکن نھیں ھے۔ اس لئے ھم یھاں پر دین اسلام کے بعض خصوصیات کی جانب اشاره کریں گے۔ مثال کے طور پر:
اسلام خدا کی مخلوقات اور اس کے بندوں سے محبت کرنے کا دین ھے اور ان سب کیلئے چاھے وه انسان ھوں یا غیر انسان خاص حقوق کا قائل ھے اس حد تک کھ مری ھوئی چڑیا پر رحم کرنا بھی قیامت کے دن خدا کے رحم کرنے کا سبب جانتا ھے [7]
دین اسلام حیوانوں پر ظلم کرنا اور انھیں تکلیف پھچاننے سے منع کرتا ھے اور درخت کے سیراب کرنے کو ایک مومن کے سیراب کرنے کے برابر جانتا ھے۔ [8] جو کچھه وه کفار اور اھل کتاب کےبارے میں سفارش کرتا ھے وه عدالت کا خیال رکھنا ھے [9] حتی کھ حضرت علی علیھ السلام ایک بوڑھے نصرانی کی بیت المال سے مالی معاونت کا حکم دیتے ھیں۔ [10]
اصولی طور پر کلمھ "اسلام" کی لغوی جڑین دو کلمے " سلم اور سلام" سے ھیں۔ جو صلح اور اطمینان کے معنی میں ھیں۔
قرآن مجید اس حقیقت کی تائید میں کھ اسلام صلح، امن اور دوستی کا دین ھے ، ارشاد کرتا ھے : " ایمان والو! تم سب مکمل طریقه سے اسلام میں داخل ھوجاؤ اور شیطانی اقدامات کا اتباع نھ کرو کھ وه تمھارا کھلا ھوا دشمن ھے"۔ [11] قرآنی نقطھ نظر میں مستحکم اور عالمی صلح اور انسانی سماج میں اطمینان خدا پر ایمان کے بغیر متحقق نھیں ھوتا اور انسانی سماجوں( جو زبان ، نسل ، ثقافت ، قومیت ، اور جغرافیائی وغیره کے لحاظ سے آپس میں مختلف ھیں ) کو جوڑنے والا حلقھ صرف خدا پر ایمان ھے۔ اسلام کی عدالت خواھی اس حد تک ھے کھ اھل کتاب کو واضح طورپر وحدت اور اتحاد کی جانب دعوت دیتا ھے اور ایک دلپذیر بیان میں فرماتا ھے " اے پیغمبر آپ کھھ دین کھ اھل کتاب آؤ ایک منصفانھ کلمھ پر اتفاق کرلیں کھ خدا کے علاوه کسی کی عبادت نھ کرین کسی کو اس کا شریک نھ بنائیں " [12]
جب مسلمانوں نے مدینھ کی جانب ھجرت کی اور ان کے اوپر اسلام کی کامیابی کا جھنڈا لھرانے لگا۔ تو مخالف طاقتوں کی جانب سے رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کو صلح کی تجویز پیش کی گئی۔ اور آنحضرت(ص) نے اس کا استقبال کیا ، اس کی زنده مثال یھود کے چند قبیلوں کے ساتھه صلح تھی جو ھجرت کے پھلے سال میں میں ھی منعقد ھوئی۔ اسلام عمومی صلح اور بقای باھم چاھتا ھے اور اس سلسلے میں مفید اور عالی پروگرام کو پیش کرتا ھے۔ [13]
جتنی اھمیت اسلام ،علم اور سائنس کو دیتا ھے اتنی اھمیت کسی اور دین میں موجود نھیں۔ اس طرح کھ علم حاصل کرنا ھر مسلمان کیلئے واجب قرار دیتا ھے [14] عالِم کی نیند کو جاھل کی عبادت سے بلند تر جانتا ھے [15] اور علماء کے قلم کو شھداء کے خون سے بھتر جانتا ھے [16] ان ھی راھنمائیوں کے نتیجھ میں مسلمانوں نے قلیل مدت میں علم اور دانش کی رفعتوں کو چھو لیا اور عظیم اسلامی تمدن کی بنیاد ڈالی اور کم نظیر سائنسداں جیسے جابر ابن حیان ( ابو الکیمیا) ، زکریای رازی ( الکحل کا موجد ) بوعلی سینا ( اپنے دور کا سب سے بھترین طبیب اور فلسفی ) ابن ھیثم ، خواجھ طوسی وغیره جیسے علماء، انسانی معاشره کو عطا کئے اور اس سلسلے میں مغربی دانشوروں کا اعتراف اور ان کی تعریف قابل انکار نھیں۔ [17]
اسلامی نقطھ نظر میں خلقت کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نھیں اور مرد کو عورت پر کسی طرح کا امتیاز نھیں ھے۔ دین اسلام بھترین طریقے سے عورت کی اھمیت اور اس کی شخصیت کو بیان کرتا ھے۔ قرآن مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کو "خاص بندے" کی حیثیت سے جو خداوند متعال کی مقرب ھے پھچنواتا ھے [18] ۔ فرعون کی بیوی کومومنوں کیلئے بھترین نمونھ کے طور پر بیان کرتا ھے [19] اور حضرت موسی کی ماں کو خدا کے الھام کے قابل جانتا ھے۔ [20] دین اسلام عورت کو مرد کیلئے سکون اور اطمینان کا سبب جانتا ھے [21] اور اھل بیت علیھم السلام کی ثقافت میں عورت پھلوان نھیں بلکھ وه ریحان ( پھول ) ھے [22] جس میں کثیر خیر رکھا گیا ھے [23] اور ماں کا مقام باپ کے مقام پر اول ھے۔ [24]
اسلامی نقطھ نگاه سے کسی قوم اور نسل کے اعتبار سے کوئی امتیاز اور فضیلت نھیں ھے۔ بلکھ صرف الھی تقویٰ ھی انسانوں میں ایک دوسرے پر فضیلت کا معیار جانا گیا ھے۔ [25]
ھر شخص اپنے اعمال کا خود ھی ذمھ دار ھے اور کوئی کسی دوسرے کے گناھوں کا بوجھه نھیں اٹھاتا [26] خداوند توبھ کرنے والے گناھگاروں کو دوست رکھتا ھے اور کھلی آغوش سے انھیں قبول کرتا ھے۔ [27] غفران اور رحمت الھی سے نا امیدی کی مذمت کی گئی ھے اور اسے ایمان نھ ھونے کی علامت بیان کیا گیا ھے [28]
مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی کھا گیا ھے۔ [29] مومنوں کی بد گوئی ، بے احترامی ، تھمت اور بھتان کو جائز قرار نھیں دیا گیا ھے۔ [30] استاد کے مقام کو بھت ھی بلند مانتا ھے [31] صفائی پاکیزگی کو ایمان کی علامتیں جانتا ھے [32] وغیره۔
لیکن اسلام کے پیرو ایک تقسیم بندی کے مطابق دو گروه شیعھ اور سنی میں تقسیم ھوتے ھیں۔ قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے احادیث میں اجمالی ، تحقیق اور غور و غوض کرنے اور عقل اور سیره عقلاء کی طرف رجوع کرنے سے یھ بات سمجھه میں آتی ھے کھ حقیقی اسلام شیعھ مذھب حق کی صورت میں متحقق ھوا ھے۔ شیعوں کا اعتقاد یھ ھے کھ یھ بات قابل تصور ھی نھیں ھے۔ کھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم رحلت کریں لیکن کسی کو اپنا جانشین نھ بنائیں۔ اور مسلمانوں اور اسلامی معاشرے کے امور کو چلانے کیلئے کسی کو سرپرست قرار نھ دیں۔ [33] شیعوں کے اعتقاد کے مطابق جس طرح رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم معصوم ھیں ، آنحضرت کے جانشین بھی معصوم ھونے چاھئیں اور ھر طرح کی معصیت سھو اور بھول چوک سے محفوظ ھونے چاھئیں۔ تا کھ رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کی رھبری کی صلاحیت ان میں موجود ھو۔ دوسرے الفاظ میں شیعوں کا یھ اعتقاد ھے کھ پیغمبر اسلام نے اپنے بعد کے دور کےلئے دین خدا کی حفاظت کیلئے پروردگار کے امر سے جانشینوں کو منصوب کیا ۔ شیعھ نقطھ نظر سے رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے جانشیوں کی تعداد باره ھے جن میں پھلے حضرت علی علیھ السلام ھیں۔ حتی کھ اھل سنت کی جماعت (معتزلھ ) پیغمبر (ص) کے سبھی اصحاب میں انھیں افضل جاننے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں۔ [34] حضرت علی علیھ السلام کے بعد ائمھ ھدٰی میں ۱۰ امام امامت کے مقام پر منصوب ھوئے جو سب اسلام کی راه میں شھید ھوئے یھاں تک کھ ۲۶۰ ھجری کو ، زمین پر آخری امام اور حجت خدا یعنی مھدی موعود عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف ، جو ساری انسانیت کے نجات دینے والے ھیں ، امامت پر منصوب ھوئے اور خدا کے اذن اور مصلحت سے وه پرده غیب میں ھیں اور ظھور کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ [35]
شیعھ اپنے دعوی کو ثابت کرنے کیلئے آیات اور معتبر روایات (جو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم سے ان تک پھنچے ھیں) سے استناد کرتے ھیں۔ [36]
اھلبیت کی افضلیت اور ان کا مقام پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن کی آیات میں اتنا زیاده بیان ھوا ھے کھ اس کا انکار کرنا محال ھے اس طرح بھت سے برادران اھل سنت بھی اس حقیقت سے واقف اور اس کا اعتراف کرتے ھیں۔
دنیا والوں کو شیعوں کا معنوی پیغام ایک جملے کے علاوه کچھه نھیں ھے اور وه یھ کھ کھ "خدا کو پھچانیں" [37] اسلام کے اعتقاد ، احکام اور اخلاقیات اپنی پرانسانی فطرت اور حقیقت سے حددرجھ مطابق ھے اور اسلام کا ثمره دنیا اور آخرت کی سعادت کے سوا کچھه نھیں ھے۔
اس سلسلے میں مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں۔
۱۔ مسلمانوں کا ابتدائی اعتقاد سوال نمبر 2287 (2463)۔
۲۔ شیعھ کے برتری کے دلائل : سوال نمبر: 2977 (3263) ۔
۳۔ قرآن اور اسلام اور مسلمان کے معنی ، سوال نمبر : 665 () ۔
۴۔ شیعھ کے خصوصیات اور امتیازات ، سوال نمبر: 3089 (3358) ۔
[1] مصباح یزدی ، محمد تقی، راه و راھنما شناسی ، ص ۱۱۳۔
[2] ایضا ، ص ۱۱۵۔
[3] ادیان الھی کا فرق صرف اسلوب اور شریعت میں ھے جبکھ قرآن کریم بھی دین کی وحدت کو بیان کرتا ھے " ان الدین عند اللھ الاسلام ": آل عمران ۱۹۔جوادی آملی ، عبد اللھ ، انتظار بشر از دین ، ص ۱۷۸۔
[4] رسالھ توضیح المسائل مراجع، مسئلھ ۱۔
[5] ابتدائی ترین اعتقادات مسلمان ، س ۸۸۸۔
[6] ایضا ۔
[7] میزان الحکمۃ ، ج ۴ ص ۶۹۶۲۔
[8] وسائل ج ۱۷ ، کتاب التجارۃ، باب ۱۰۔
[9] نھج البلاغه ، خط نمبر ۵۳۔
[10] ایضاً
[11] " یا ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ و لا تتبعوا خطوات الشیطان انھ لکم عدو مبین " ، بقره : ۲۰۸۔
[12] سوره آل عمران ۶۴۔
[13] درر اخبار ، ص ۳۸ ح ۱۱۔
[14] بحار الانوار ، ج ۷۴، ص ۵۵، باب علم و عقل۔
[15] ایضا۔
[16] ایضا۔
[17] نیک بین ، نصر اللھ ، اسلام از دیدگاه دانشمندان غرب۔
[18] سوره آل عمران ، ۴۲۔
[19] سوره تحریم، ۱۱۔
[20] سوره قصص / ۷
[21] سوره آل عمران / ۱۶۴۔
[22] نھج البلاغه، خط نمبر ۳۱۔
[23] من لا یحضره الفقیھ۔ ج ۳ ص ۳۸۵۔
[24] کافی ، ج ۲، ص ۱۶۲، مزید آگاھی کیلئے رجوع کرے ، موضوع، اسلام میں عورت ، ص ۳۶۵-
[25] سوره حجرات / ۱۳۔
[26] سوره انعام / ۱۶۴۔
[27] سوره بقره / ۲۳۲۔
[28] سوره یوسف / ۸۷۔
[29] سوره حجرات / ۱۰۔
[30] تفسیر نمونھ ، ج ۱۴، ص ۳۷۰ اور ۴۰۰۔
[31] بحار الانوار ج ۷۴ باب ۱۶۵ ، ح ۱۹۳۔
[32] مستدرک الوسائل ج۱۶، باب ۳۱۹ ح ۹
[33] طباطبائی ، محمد حسین ، شیعه در اسلام ص ۱۲۸۔
[34] بدایۃ المعارف، محسن خرازی، ، بخش امامت،
[35] مطھری ، مرتضی، کلام و عرفان، ص ۳۸۔
[36] بدایۃ المعارف، محسن خرازی ، بخش امامت۔
[37] طباطبائی ، محمد حسین ، شیعھ در اسلام ، ص ۲۳۶۔