Please Wait
8399
یه امر واضح هو نا چاهئے که تشیع کی نسبت آپ کی دلچسپی، صرف پسند ومحبت کی بناپر هے یا مستحکم استدلال کی بناپر هے؟ اگر آپ کی دلچسپی دلیل و برهان پر مبنی هو تو دوسرے مذاهب اور فرقوں کی کمزوریاں خود بخود واضح هو جائیں گی-
دوسرے اسلامی مذاهب سے شیعه مذهب کا اصلی فرق اور برتری پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے اهل بیت (ع)کی امامت و ولایت کے بارے میں شیعوں کے نظریه و اعتقاد پر مبنی هے – کیونکه شیعه امام معصوم کے لئے مسئله وحی کے علاوه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی حیثیت کے قائل هیں اورامام کو دینی مرجع( دین کو بیان کر نے والا اور اس کا محافظ اور قرآن مجید کی آیات کا مفسر) ، ولایت تکوینی کا مالک، عالم کے مظاهر پر تصرف کی طاقت رکھنے والا، اجتماعی مسائل میں سیاسی مرجع، سب سے برتر رهبر، فیصله کر نے کا اختیا ر رکھنے والا اور عالم ترین شخص جانتے هیں اور اس کی مکمل اطاعت کر نا اپنے لئے واجب جانتے هیں – لیکن افسوس کا مقام هے که دوسرے اسلامی مذاهب ، من جمله مالکی یا حنفی اس قسم کا اعتقاد نهیں رکھتے هیں اور اهل بیت علیهم السلام و ائمه معصو مین علیهم السلام کے بارے میں صرف محبت اور رابطه پر اکتفا کرتے هیں-
جبکه " امام و اهل بیت علیهم السلام " کی مکمل اطاعت کر نے کے لئے ان سے محبت کر نے کے علاوه مکمل پیروی کر نا ان ضروری تعلیمات میں سے هے جو اهل سنت سے نقل کی گئ روایتوں کے مطابق بھی قابل قبول هے – یه امر همارے انفرادی و اجتماعی طرز عمل میں گهرا اثر ڈال سکتا هے-
تشیع کے بارے میں آپ کی دلچسپی قابل احترام هے، لیکن واضح هے که دین ومذهب کو منتخب کرنا ایک جذباتی دلچسپی پر مبنی امر نهیں هے بلکه یه ایک ایسا فرض اور واجب هے جو عقل پر مبنی هے! دیکھنا چاهئے که تشیع کی به نسبت آپ کی دلچسپی کی علت کیا هے؟ کیا یه صرف ایک دلچسپی اور محبت هے یا اس کے پیچھے ایک مستحکم استدلال بھی هے؟ اگر آپ کی دلچسپی برهان و استدلال پر مبنی هو تو حتماً یه ان قوی نکات کی بنیاد پر هے که جنھیں آپ نے مکتب تشیع میں پایا هے اس صورت میں دوسرے مذاهب اور فر قوں کی کمزوریاں اور کوتاهیاں خودبخود واضح هو جائیں گی-
شیعه مذهب کا دوسرے مذاهب سے اصلی فرق اور برتری اهل بیت پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی امامت وولایت کے بارے میں شیعوں کے نظریه اور اعتقاد پر مبنی هے- یهاں پر هم مسئله امامت کے سلسله میں شیعوں کے بعض اعتقادات کے بارے میں اشاره کرتے هیں:
١- شیعه، باره اموں کو هر قسم کی خطا ، گناه اور بھول چوک سے منزه اور معصوم جانتے هیں، جن کے نام احادیث پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم میں واضح طور پر بیان کئے گئے هیں-[1]
٢- شیعه، ائمه معصوم علیهم السلام کے بارے میں ، مسئله وحی کے علاوه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی تمام حیثیتوں کے قائل هیں-
٣- شیعه امام معصوم علیه السلام کو دینی مر جع ( دین کو بیان اوراس کا تحفظ کر نے والے اور قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کر نے والے) جانتے هیں –
٤- شیعه ، امام معصوم علیه السلام کو ولایت تکوینی کا مالک اور عالم کے مظاهر پر تصرف کی قدرت رکھنے والا جانتے هیں-
٥- شیعه امام معصوم علیه السلام کو سیاسی مرجع اور اجتماعی مسائل میں سب سے برتر رهبر اور فیصله سنانے کے سلسله میں صاحب اختیار جانتے هیں اور اس کی مکمل اطاعت کر نا واجب جانتے هیں-
٦- شیعه، امام معصوم کو علمی مسائل میں عالم ترین افراد جانتے هیں-
٧- شیعوں کی خصوصیات میں سے امام علی علیه السلام اور اهل بیت علیهم السلام کی مکمل پیروی و اطاعت کر نا هے ، جس کی اسلام کی نظر میں کافی اهمیت هے اور متعدد روایتوں میں ، جنھیں اهل سنت نے بھی نقل کیا هے ، لوگوں کے اعمال کو قبول کر نے کے سلسله میں خداوند متعال کا معیار امیر المٶ منین حضرت علی علیه السلام کی ولایت کو قبول کر نا قرار دیا گیا هے![2]
حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے:" امیرالمٶمنین علی بن ابیطالب (علیه السلام) کے چهره پر نظر ڈالنا عبادت هے اور ان کو یاد کرنا عبادت هے- اور ان سے دوستی اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اظهار کئے بغیر کسی کا ایمان قبول نهیں کیا جاتا هے-[3]
جو کچھـ مذ کوره روایت سے معلوم هو تا هے وه یه هے که " بنیادی طور پر ایمان کو قبول کر نے کی شرط ( اعمال عبادت کی بات هی نهیں ! ) ولایت و برائت کو قبول کر نا هے –
اس کے علاوه اهل سنت علماء نے بھی نقل کیا هے که:" پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وآله وسلم) نے فر مایا هے: یاعلی! اگر کوئی (حضرت) نوح کی عمر کے برابر عبادت کرے اور کوه احد کے برابر سونا رکھتا هو اور اسے خدا کی راه میں صدقھ کرے اور اس کی عمر اس قدر طولانی هو که وه هزار بار پیدل حج پر جائے اور اس کے بعد (مکه میں) صفا و مروه کے در میان مظلو مانه طور پر قتل کیا جائے ، لیکن (اے علی!) اگر وه تیری ولایت نه رکھتا هو، تو اس تک بهشت کی خوشبو بھی نهیں پهنچے گی اور وه کبھی بهشت میں داخل نهیں هوگا-"[4]
لیکن علی علیه السلام کی ولایت سے مراد کیا هے،اس کو قرآن مجید میں اور علی علیه السلام کی شان میں استعمال هوئے موارد سے واضح کیا جانا چاهئے – قرآن مجید میں اس سلسله میں ارشاد هو تا هے :" ایمان والو! بس تمهارا ولی الله هے اور اس کا رسول (ص) اور وه صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے هیں اور حالت رکوع میں زکٶه دیتے هیں-"[5]
بیشک آیه شریفه میں استعمال هوا لفظ "ولی" کے معنی دوست یا ناصر و مدد گار نهیں هیں ، کیونکه یه ایک عام حکم هے جس میں تمام مسلمان شامل هیں ، تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کو دوست رکھنا چاهئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاهئے حتی که وه بھی جن پر زکواه واجب نهیں هے ، اور بنیادی طور پر ان کے پاس کوئی چیز نهیں هے که جس کی وه زکواه دیں ، رکوع کی حالت میں زکوه دینے کی بات هی نهیں ، وه سب آپس میں دوست اور ایک دوسرے کے مدد گار هو نے چاهئیں-
یهاں پر معلوم هو تا هے که آیه شریفه میں استعمال هوا لفظ "ولی" سر پرستی، تصرف اور مادی و معنوی رهبری وقیادت کے معنی میں هے، خاص کر یه ولایت ، خدا وند متعال اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی ولایت کی صف میں قرار پائی هے اور تینوں ولایتیں ایک هی جمله میں بیان هوئی هیں-
بهت سی اسلامی کتا بوں اور اهل سنت کے منابع میں ، متعدد روایتیں پائی جاتی هیں جن سے معلوم هوتا هے که مذ کوره آیه شریفه حضرت علی علیه السلام کی شان میں نازل هوئی هے – ان میں سے بعض روایتوں میں انگو ٹھی کو رکوع کی حالت میں بخش دئے جانے کے مسئله کی طرف بھی اشاره هوا هے ، لیکن بعض روایتوں میں اس کی طرف اشاره نهیں هوا هے بلکه صرف اس آیت کے علی علیه السلام کی شان میں نازل هو نے کو بیان کر نے پر اکتفا کیا گیا هے-[6]
اگر کوئی شخص مسئله امامت و رهبری پر شیعه عقیده کے مطابق نظر ڈالے اور امامت و رهبری کے بارے میں شیعوں کا اعتقاد رکھتا هو تو اس کی زندگی کی راه میں ایک انقلاب رونما هو گا اور وه سیاسی مسائل کے سلسله میں اپنی باگ ڈور هر ایک کے هاتھـ میں نهیں دے گا اور وه همیشه معصوم امام (ع) کا مطیع و فر مانبردار هو گا-
اگر چه تمام مذاهب کے پیرو، من جمله حنفی اور مالکی حضرت علی علیه السلا م اور آپ کے فرزندوں (معصوم ائمه) علیهم السلام کی نسبت عقیدت، محبت اور مودت رکھتے هیں لیکن قرآن مجید کے مطابق مکمل اور گهری ولایت صرف مذهب تشیع یعنی جعفری اثنا عشری میں پائی جاتی هے اور هر مسلمان کا فرض هے که اس مکتب کو قبول کرے جو قرآن مجید اور سنت پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے نزدیک تر هو-
[1] -بحار الانوار ج: ٣٦ص: ٣٦٢-
[2] - مناقب خوارزمی، ١٩ و٢٥٢-
[3] - منا قب خوارزمی ،١٩ و٢١٢: کفایھ الطالب ، گنجی شافعی ، ٢١٤-" ---النظر الی وجه امیرالمٶمنین علی بن ابیطالب عباده وذکره عباده ولا یقبل الله ایمان عبدالا بو لا یت والبرائه من اعدائه"
[4] - "---ثم لم یوالیک یاعلی لم ییشم رائحه الجنه ولم ید خلها " مناقب ، خطیب خوارزمی ، مقتل الحسین (ع) ، خوارزمی،١/٣٧-
[5] - سوره مائده ،٥٥" انما ولیکم الله و رسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه و یٶ تون الزکواه وهم راکعون-"
[6] - تفسیر نمونه ،ج٤،ص: ٤٢٤و ٤٢٥-