Please Wait
10589
اسلام میں امامت کی بحث خاص اھمیت رکھتی ھے اور یھ بحث انسانی کمال کی آخری سیڑھی ھے یھ مقام کبھی نبوت اور رسالت کے ساتھه جمع ھوا ھے ۔ جیسے حضرت ابراھیم علیھ السلام کی امامت اور حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی رسالت اور امامت اور کبھی نبوت کے مقام سے علیحده رھی ھے، جیسے ائمھ اھل بیت علیھم السلام کی امامت۔
معاشرے میں امام کی ضرورت کے بارے میں کھنا چاھئے کھ جس طرح پیغمبروں کا ھونا انسان کے کمال اور ترقی کیلئے ضروری ھے امام بھی دین کی حفاظت اور نبوت کے پیغام کو جاری رکھنے کیلئے ضروری ھے۔
ھر زمانھ میں معصوم انسان اور حجت الھی کی ضرورت ، امامت عامھ کی مختلف دلیلوں کی سند سے ثابت ھے ، ان ھی دلائل میں سے ایک دلیل یھ ھے کھ نبوت اور امامت خداوند کی طرف ایک معنوی فیض اور قاعده لطف کی بنیاد سے ھے اور اس طرح کا لطف دائمی ھونا چاھئے۔
اس کے علاوه برھان مظھر جامع ، برھان امکان اشرف، برھان علت غایی وغیره ، ضرورت امام کے دلائل میں شمار کئے جاتے ھیں۔
اسلام میں امامت ایک خاص اھمیت کی حامل ھے اور قرآن مجید نے اسے انسان کے کمال کی آخری سیڑھی جانا ھے ۔ جس مقام پر صرف اولوالعزم پغمبر فائز ھوئے ھیں۔ قرآن مجید میں حضرت ابراھیم علیھ السلام کے بارے میں ارشاد ھے: " اوراس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعھ ابراھیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کردیا تواس نے کھا کھ ھم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنارھے ھیں۔ انھوں نے عرض کی کھ میری ذریت؟ ارشاد ھوا کھ یھ عھده امامت ظالمین تک نھیں جائے گا" [1]
اس آیھ شریفھ سے یھ اخذ ھوتا ھے کھ یھ مقام اتنا بلند ھے کھ حضرت ابراھیم علیھ السلام رسالت اور نبوت کے حاصل ھونے کے بعد اپنی آخری عمر میں مختلف امتحانوں سے گزر کر اس مقام پر فائز ھوئے۔
امامت کا مقام بھت سے مواقع نبوت کے مقام کے ساتھه جمع ھوتا ھے اور اولو العزم پیغمبر جیسے حضرت ابراھیم خلیل امامت کے مقام پر پھنچے ھیں اور اس سے زیاده واضح رسالت ، نبوت اور امامت کے مقام کو رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم میں جمع ھونا تھا اسی طرح ممکن ھے بھت سے موقع پر یھ مقام ، رسالت اور نبوت سے علیحده ھو جیسے کھ ائمھ اطھار علیھم السلام کی ذمه داری صرف امامت کا مقام ھے بغیر اس کے کھ ان پر وحی نازل ھو۔
ھر زمانه میں امامت عامه ضرورت کے براھین:
الف ) برھان لطف: نبوت اور امامت خدا کی جانب سے ایک معنوی فیض ھے کھ جو قاعده لطف کی بنیاد پر ھمیشه موجود ھونا چاھئے۔ یه قاعده اس بات کا متقاضی ھے کھ اسلامی معاشرے میں ایک امام ھونا چاھئے جو حق کا مرکز ھو اور معاشره کو خطا سے روک دے۔
امام غائب کے الطاف مندجھ ذیل ھوسکتے ھیں:
۱۔ کلی طور پر خدا کے دین کی حفاظت۔ [2]
۲۔ مستعد نفوس کی تربیت۔
۳۔ مذھب کا باقی رکھنا۔
۴۔ لوگوں کے درمیان ایک زنده نمونه کا ھونا جس کی لوگ اقتدا کریں [3]
ب) علت غایی کی برھان : علم کلام میں ثابت ھوا ھے کھ خداوند متعال کو اپنے افعال سے ایک غرض اور مقصد ھے، چونکھ خداوند مطلق کمال ھے اور اس میں کوئی نقص ممکن نھیں ، خداوند کے افعال کا مقصد خود مخلوقات کو پھنچتا ھے اور انسان کے وجود کا مقصد بھی انسان کامل ھے ، یعنی انسانیت ایک درخت کے مانند ھے جس کا ثمر انسان کامل کا وجود ھے۔ [4]
ج ) امکان اشرف کی برھان: فلسفھ میں ایک قاعده بیان ھوتا ھے جس کا نام قاعده امکان اشرف ھے۔ اس کے معنی یھ ھیں: کھ "ممکن اشرف " ( شریف ممکن الوجود ) اپنے وجود کے مراتب میں " ممکن اخس" ( پست ممکن الوجود ) سے پھلے ھونا چاھئے۔ [5]
وجود کے عالم اورمراتب میں انسان اشرف المخلوقات ھے اور محال ھے کھ وجود ، حیات ، علم قدرت اور جمال وغیره انسان کامل ( جو کھ زمین پر حجت الھی ھے ) تک پھنچنے سے پھلے انسان کے افراد تک پھنچے۔
د) برھان مظھر جامع: خدا کی حقیقت مطلقھ کے ظھور کے مقام پر ، وحدت کے احکام کا غلبھ ھے اور وحدت ذاتی میں تفصیلی اسماء کی کوئی جگھ نھیں ھے ، دوسری جانب تفصیلی جلوے جو عالم خارج میں واقع ھوتے ھیں ان میں کثرت کے احکام ، وحدت پر غالب ھیں۔ یھیں پر الھی فرمان اپنے اعتدال کا متقاضی ھے جس میں ذاتی وحدت یا ممکنات کی کثرت ایکدوسرے پر غالب نھیں تا کھ وه اسماء کی تفصیل اور وحدت حقیقیت کی تجلی بنے ، اور وه اعتدالی صورت ھی "انسان کامل" ھے۔ [6]
علامھ حلی ( رح) خواجھ نصیر الدین طوسی کے کلام کی توضیح میں امام کے وجود کی بعض ضرورتوں کی جانب اشاره کرکے فرماتے ھیں:
۱۔ پیغمبر کا وجود ضروری ھے ، تا کھ انسان کی عقلی پھچان ، کو ارشادی ( روایی ) بیان کے ذریعھ قوت ملے۔ کیوں کھ اگر چھ انسان اپنی عقل کی توانائی سے اصول اور فروع دین کے بھت سے حقایق کا ادراک کرسکتا ھے، لیکن کبھی کبھی اس کے وجود کی گھرائیوں میں وسوسھ اور شکوک پیدا ھوتے ھیں۔ جو دین کے حقائق پر عمل کرنے اور ان پر اعتماد کرنے میں رکاوٹ بنتے ھیں۔ لیکن جب یھ عقلی احکام خدائی راھنما کے بیان سے تائید پاتے ھیں تو ھر طرح کا وسوسھ اور شک مٹ جاتا ھے اور انسان دل کی گھرائیوں سے اپنے عقلی اداراکات پر چلتا ھے۔
۲۔ بھت سے امور میں عقل ان کے حسن اور قبح کو ادراک نھیں کرتی اور انسان صرف اپنی فکر سے ان کے نفع اور نقصان کا ادراک نھیں کرسکتا یھیں پر ضرورت کا احساس کرتا ھے۔ تاکھ کوئی اشیاء کے نفع اور نقصان کو ان کیلئے بیان کرے اور یھ کام "الھی راھنماؤں" جو وحی کے منبع سے رابطھ میں ھیں ، سے ممکن بنتا ھے۔
۴۔ انسان ایک سماجی موجود ھے ، اور سماج ان قوانین کے بغیر جن میں ھر ایک فرد کے حقوق کا خیال رکھا گیا ھو، اپنے صحیح اھداف کی جانب آگے نھیں بڑھ سکتا ، اور اپنے مطلوب کمال تک نھیں پھنچ سکتا۔ ان قوانین کی صحیح تشخیص اور ان کا اجرا کرنا پاک اور معصوم ائمھ کے بغیر ممکن نھیں۔
۵۔ انسان ، کمالات کا ادراک کرنے ، علوم و معارف کی تحصیل کرنے میں اور فضائل کو حاصل کرنے کے لحاظ سے مختلف ھیں ، بعض انسانوں میں اس راه پر چلنے کی طاقت ھے اور بعض عاجز اور ناتواں ھیں۔ الھی رھنما پھلے گروه کی تقویت کرتے ھیں اور دوسرے گروه کی مدد کرتے ھیں تا کھ دونوں گروه ممکن اور مطلوب کمال تک پھنچ جائیں۔
۶۔ انسانوں میں اخلاقی مراتب کے اختلاف کو مد نظر رکھه کر ان فضائل کی پرورش کرنا صرف پاک اورمعصوم رھبروں کے ذریعے ھی ممکن ھے۔
۷۔ الھی راھنما خدا کی اطاعت اور گناه کے مقابلے میں خدا کا ثواب ، عقاب ، جزا اور عذاب سے کامل آگاھی رکھتے ھیں اورجب وه دوسروں کو ان امور سے آگاه کرتے ھیں تو ان میں اپنے فرائض کو انجام دینے کیلئے طاقتور محرک پیدا ھوتاھے ۔ [7]
اس معنی کو مد نظر رکھه کر کھ امامت کا مطلب نبوت کا استمرار ھے، اکثر جو دلائل نبوت کے لازم ھونے میں بیان کئے گئے۔ وه معصوم اماموں کی ضرورت کے بارے میں ثابت ھیں ۔ دوسرے الفاظ میں یوں بیان کریں، کھ خدا نے کمال اور سعادت کی راه کو طے کرنے کیلئے بنی نوع انسان کو خلق کیا ھے۔ جس طرح خداوند متعال نے ان کی ھدایت کیلئے ایسے پیغمبروں کو مبعوث کیا ھے جن پر وحی ھوتی ھو اور وه عصمت کے مقام پر فائز ھوں، اس طرح ان کی راه کو جاری رکھنے کیلئے پیغمبروں کی رحلت کے بعد، ان کیلئے ایسے معصوم جانشینوں کو قرار دیا ھے۔ جو انسانی معاشرے کو اس کی منزل مقصود تک پھنچنے میں مدد کریں۔ اور یقینا اس کے بغیر یھ ھدف مکمل نھیں ھوگا۔ کیونکه:
اولاً: انسانی عقلیں اکیلے میں ان ترقی کے عوامل اور اسباب کو مشخص کرنے سے قاصر ھیں یھاں تک کھ ان عوامل کے دسویں حصے کو بھی مشخص نھیں کر سکتیں۔
ثانیاً: انبیاء کی رحلت کے بعد، ممکن ھے ان کے دین میں تحریف ھوجائے لھذا اس تحریف کو روکنے کیلئے ایسے معصوم اور بلند مرتبھ محافظ موجود ھونے چاھئیں ۔ جو ان کے دین کی حفاظت کریں ۔ اس میں کوئی شک نھیں ھے کھ خداوند متعال کا ارشاد ھے ، "انا نحن نزلنا الذکر و انا لھ لحافظون" [8] یعنی ھم نے قرآن کو نازل کیا اور ھم اس کی حفاظت کرتے ھیں لیکن دین کی حفاظت اسباب کے ذریعے ھونی چاھئے اوریھ اسباب معصوم امام ھیں۔
ثالثاً: الھی حکومت کی تشکیل عدل و مساوات کو برقرار رکھنا ، انسان کو ان کے مقاصد تک پھنچانا ، جن کیلئے وه خلق ھوئے ھیں ، ایک معصوم انسان کے بغیر ممکن نھیں ، کیوں کھ تاریخ اس بات کی گواھی دیتی ھے کھ انسانی حکومتیں ھمیشھ افراد یا گروھون کے منافع کیلئے تشکیل پاچکی ھیں اور ان کی کوشش ھمیشھ اپنے لئے ھی رھی ھے۔ اور جس طرح ھم نے بار بار آزمایا ھے کھ ڈموکریسی ، لوگوں کی حکومت ، انسانی حقوق جیسے عناوین ، طاقتور ملکوں کے اپنے شیطانی مقاصد میں کامیاب ھونے کیلئے ایک طرح کا پرده ھے تاکھ وه ان عناوین کے ذریعے رازوارانھ طریقھ سے لوگوں پر حکومتوں کو مسلظ کریں۔
رابعا: دینی احکام کو معاشرے میں جاری رکھنے کیلئے ایسے عالِم اماموں کی ضرورت ھے جو سب دین کی جزئیات اور گھرائیوں سے آگاه ھوں تا کھ کسی بھی وقت دین کے سلسلے میں کسی کے لئے چھوٹا سا ابھام بھی باقی رھے۔
جو کچھه ھم نے بیان کیا ھے اس سے معصوم اماموں کے وجود کا فلسفھ معلوم ھوتا ھے۔ [9]
[1] " و اذابتلی ابراھیم ربھ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس امام قال و من ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین۔" بقری / ۱۲۴۔
[2] شریف العلماء ، کشف القناع۔ ص ۱۴۸
[3] عنوان مبانی کلماء مھدویت، سوال 3367 (3652)
[4] عنوان مبانی فلسفی مھدویت ، سوال (221)
[5] سید محمد حسین ، نھایۃ الحکمۃ ، ص ۳۱۹۔ ۳۲۰
[6] تمھید القواعد، ص ۱۷۲ ، جوادی آملی ، عبدا للھ ، تحریر تمھید القواعد، ص ۵۴۸۔ ۵۵۵۔
[7] شرح تجرید، ص ۲۷۱۔ ( با کمی تلخیص و اقتباس) منقول از پیام قرآن ، ج ۹ ص ۳۸ ، ۳۷،
[8] سوره حجر / ۹۔
[9] مزید آگاھی کیلئے ، رجوع کرے۔
الف ) اثبات امامت امام علی علیھ السلام سوال ۳121 (3399)۔
ب) دلائل اعتقاد بھ امامت و امامان، سوال ۳۲۱ ()۔
ج) دلائل عقلی زنده بودن امام زمان ( عج) سوال ۵۸۲ ()۔