Please Wait
9469
ایک کلی قاعده کے عنوان سے ازدواج میں "اختلاف جنس" کی رعایت کرنا ضروری هے ـ زوجیت ایک "مفهوم" هے جو صرف "زن و مرد" کے درمیان واقع هوتا هے ـ اس بنا پر اگر کسی بھی وجه سے، من جمله تغییر جنسیت سے یه رابطه مخدوش هوجائے، تو سابقه نکاح باطل اور منحل هوجاتا هے ـ اور زوجین خود بخود ایک دوسرے سے جدا هوجاتے هیں اور طلاق یا فسخ جیسے عامل کی ضرورت نهیں هے ـ پس اگر ازدواج کے بعد مرد تغییر جنسیت انجام دے تو هم اس صورت میں "دو عورتوں" کا مشاهده کریں گے، که ان دو کے درمیان جنسی رابطه "مساحقه" کا مصداق هوگا اور یه حرام هے ـ اسی طرح اگر ازدواج کے بعد عورت تغییر جنسیت انجام دے تو جدید حالت میں هم دو"مردوں" کے وجود کا مشاهده کریں گے که ان دو کے درمیان جنسی رابطه، "لواط کا" مصداق هوگا اور یه حرام هے ـ
اسلامی فقه اور قوانین میں ایک واضح اور بدیهی مسئله، "ازدواج میں اختلاف جنس کا هونا ضروری هے"ـ "مرد کا مرد کے ساتھـ " ازدواج کرنا یا "عورت کا عورت کے ساتھـ" ازدواج کرنا شرعاً جائز نهیں هے ـ[1] گناهان کبیره میں سے ایک، جس کا معین حد شرعی بھی هے ـ "لواط" (مرد کی مرد کے ساتھـ هم جنسی بازی) اور "مساحقه" (عورت کی عورت کےساتھـ هم جنسی بازی) هے ـ حتی شرعی اور رسمی ازدواج انجام پانے کے بعد بھی اگر خلاف معلوم هوجائے تو سابقه ازدواج باطل هے اس کے باقی رهنے کا کوئی جواز نهیں هے اور زوجین خود بخود ایک دوسرے سے جدا هوتے هیں ـ
نکاح کے وقت بھی اور ازدواجی زندگی کےدوران بھی "اختلاف جنسی" نکاح کے صیحح هونے کی شرط هے ـ اسی لحاظ سے، "تغییر جنسیت" سے نکاح باطل هوگا ـ لیکن یه عدالت کا کام هے که "تغییر جنسیت" کی ماهرین کے نظریه کی بنیاد پر تایئد کرے اور "تغییر جنسیت" واقع هونے کی تاریخ سے نکاح کے باطل هونے کا حکم صادر کرے ـ[2]
"تغییر جنسیت" کی گونا گون حالتیں هیں که "تغییر جنسیت کا ازدواج پر اثر" کی بحث میں ان تمام حالتوں پر بحث کی جانی جاهئے ـ
خلاصه کے طور پر "زوجین کی تغییر جنسیت" کا کھاکه حسب ذیل صورت میں پیش کیا جاسکتا هے :
الف 1: مرد کی عورت میں تغییر جنسیت
الف 2: عورت کی مرد میں تغییر جنسیت
ب: دونوں زوجین کی تغییر جنسیت
ب 1: زوجین کی تغییر جنسیت بصورت غیر هم زمان
ب2: همزمان صورت میں زوجین کی تغییر جنسیت
ج : خنثٰی کی تغییر جنسیت
ج 1: حنثائے مشکل کی تغییر جنسیت
ج 2: خنثائے غیر مشکل کی تغییر جنسیت
د: مرد یا عورت کی خنثٰی میں تغییر جنسیت
الف 1: (زوجین میں سے ) مرد کے عورت میں تغییر جنسیت کی صورت میں ازدواج کا باقی رهنا یا نه رهنا ـ
اگر ازدواج کے بعد، مرد تغییر جنسیت دیکر عورت میں تبدیل هوجائے، چنانچه یه آپریشن کامیاب هوجائے، جدید حالت میں، سابقه زوجین کی زندگی ، "دو عورتوں" کی زندگی میں تبدیل هو جائے ـ تو قدرتی بات هے که اسلام کے مطابق "دو عورتوں کا ازدواج" باطل هے، اس بنا پر سایقه نکاح مکمل طور پر باطل اور بے اثر هوگا ـ امام خمینی (رح) اس سلسله میں فرماتے هیں : ". . . اسی طرح اگر ایک عورت ایک مرد سے ازدواج کرے اور اس کے بعد مرد اپنی جنسیت کو تغییر دے، تو تغییر جنسیت کے وقت سے ان کا نکاح باطل هوگا ـ[3]
الف 2: (زوجین میں سے ) عورت کے مرد میں تغییر جنسیت کی صورت میں ازدواج کا باقی رهنا یا نه رهنا ـ
اگر ازدواج کے بعد، عورت، مرد میں تبدیل هوجائے، ازدواج کا موضوع یعنی "میاں بیوی" کا عنوان ختم هو جائے تو سابقه نکاح باطل اور بے اثر هوگا ـ امام خمینی (رح) اس سلسله مین فرماتے هیں:
"اگر کوئی عورت ازدواج کرے، اس کے بعد عورت اپنی جنسیت میں تبدیلی لائے اور مرد بن جائے، تو تغییر جنسیت کے وقت سے نکاح باطل هوتا هے ـ[4]
ب 1: زوجین میں غیر هم زمان (غیر مقارن) صورت میں تغییر جنسیت کی وجه سے ازدواج کا باقی رهنا یا نه رهنا ـ
بعض اوقات زوجین میں سے دونوں تغییر جنسیت انجام دیتے هیں، البته اس وضاحت کے ساتھـ که عورت اور مرد کی تغییر جنسیت زمان کے لحاظ سے نسبتاً ایک طولانی فاصله کے بعد انجام پاتی هے، مثلاً ایک سال یا دو سال کے بعد انجام پاتی هے ـ اس فرض کی بنا پر کوئی فرق نهیں هے که پهلے مرد تغییر جنسیت انجام دے یا عورت تغییر جنسیت انجام دے ـ
اس صورت میں، سابقه حالت کے مانند ازدواج باطل هے، کیونکه سابقه ازدواج کے باقی رهنے کا شرعی جواز موجود نهیں هے ـ امام خمینی(رح) اس سلسله میں فرماتے هیں:
"اگر میاں بیوی نے اپنی جنسیت کو جنس مخالف میں تغییر دیدی، اس طرح که شوهر عورت میں تبدیل هوجائے اور بیوی مرد میں تبدیل هوجائے، چنانچه ان دونوں کی تغییر غیر متقارن (غیر هم زمان) صورت میں واقع هوجائے، تو اس کا حکم سابقه حکم کے مانند (نکاح باطل) هے ـ"[5]
ب 2: همزمان (مقارن) صورت میں زوجین کی تغییر جنسیت کی وجه سے ازدواج کا باقی رهنا یا نه رهنا ـ
یه تصور کیا جاسکتا هے که کبھی میاں بیوی ایک هی وقت میں، تغییر جنسیت دیدیں ـ اس حالت میں یه سوال پیدا هوتا هے که کیا سابقه نکاح برقرار رهے گا یا باطل هوگا؟ یهاں پر دو احتمال ممکن هیں:
پهلا احتمال : زوجین کی همزمان تغییر جنسیت کی صورت میں، سابقه نکاح بد ستور باقی هے ـ وضاحت یه که حقیقت ازدواج، هر ایک کی زوجیت، ایک دوسرے کی به نسبت هے نه اس سے زیاده ـ اس صورت میں آپریشن سے پهلے اور بعد میں صرف ان کی حالت اور کیفیت میں تبدیلی آئی هے ـ اس بنا پر، موجوده شوهر، پهلے بیوی تھی اور موجوده بیوی پهلے شوهر تھا، که جدید حالت میں، ازدواج کی حقیقت ، یعنی دونوں کی ایک دوسرے کی نسبت زوجیت، بدستور باقی هے ـ[6]
دوسرا احتمال : زوجین میں همزمان تغییر جنسیت کی وجه سے سابقه نکاح باقی نهیں رها هے بلکه باطل هوچکا هے، کیونکه "زن و شوهر کے درمیان رابطه" غیر متشابه الاطراف (طرفین کا یکسان نه هونا) هے که زوجین میں تغییر جنسیت کے بعد به نسبت اور رابطه، ختم هو چکا هے ـ اس بنا پر، سابقه عقد ازدواج باطل هوا هے اور طرفین ازدواجی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے، جدید عقد ازدواج کے محتاج هیں ـ[7]
مذکوره دو احتمالات کے بارے میں امام خمینی (رح) کا نظریه:
سوال:
"اگر میاں بیوی همزمان (مقارن) تغییر جنسیت دیدیں، کیا نکاح باطل هوگا یا ان دو کا نکاح باقی هے، اور اگر چه احکام و فرائض بدل جایئں: (یعنی) موجوده مرد پر (جو پهلے عورت تھی) نفقه دینا اور موجود عورت پر (جو پهلے مرد تھا) شوهر کی اطاعت واجب هوتی هے ؟
جواب:
احتیاط یه هے که دوباره نکاح پڑھیں اور عورت کسی دوسرے مرد سے ازدواج نه کرے، مگر یه که دونوں کی مرضی سے طلاق حاصل کی جائے، اگرچه بعید نهیں هے که ان کا نکاح بدستور برقرار هو ـ "[8]
ج 1: خنثائے مشکل کی تغییر جنسیت کے بعد سے ازدواج کا باقی رهنا یا نه رهنا ـ
فرض یه هے که خنثائے مشکل نے کسی دوسرے فرد سے شادی کی هے، اس کے بعد خنثائے مشکل نے تغییر جنسیت دیدی هے اور مونث یا مذکر جنس میں تبدیل هوا هے ـ اس مسئله کے دو فرض هیں :
پهلا فرض: خنثائے مشکل کا نکاح ایک مرد سے انجام پایا هو ـ
دوسرا فرض: خنثائے مشکل کا نکاح ایک عورت سے انجام پایا هو ـ
مشهور فقها اعتقاد رکتھے هیں که : چونکه خنثائے مشکل کی حقیقی جنسیت معلوم نهیں هے، پس اس کا ازدواج کرنا جائز نهیں هے، کیونکه ممکن هے اپنے هم جنس سے ازدواج کرے ـ اس کے مقابل میں ایک نادر نظریه بھی پایا جاتا هے، اس نظریه کا قایل معتقد هے که خنثائے مشکل ایک جنسیت کو اپنے لئے انتخاب کرسکتا هے ـ[9]
مشهور نظیریه کے مطابق، خنثائے مشکل کا ازدواج، پهلے اور دوسرے هر دو مفروضوں کے مطابق باطل تھاـ اس بنا پر تغییر جنسیت کے مسئله پر کوئی اثر نهیں پڑتا هے، یعنی سابقه نکاح کے باطل هونے پر کوئی اثر نهیں پڑتا هے ـ
غیر مشهور نظریه کی بیناد پر، اگر خنثائے مشکل نے جنسیت نسوانی کو انتخاب کیا هو، پس اس کا نکاح اول سے صیحح تھا، اب چونکه تغییر جنسیت کی وجه سے عورت میں تبدیل هو جائے، تو اس کا سابقه نکاح برقرار رهے گاـ لیکن اگر مرد میں تبدیل هوجائے تو اس کا سابقه نکاح باطل هوجائے گا ـ
ج 2: خنثائے مشکل کی تغییر جنسیت کے بعد ازدواج کا باقی رهنا یا نه رهناـ
خنثائے غیر مشکل (دو جنسی ناقص)وه خنثٰی هے جو شرعی علائم و قرائن سے مذکر و مونث دوجنسوں میں سے ایک میں ملحق هوتا هے ـ اس بنا پر، خنثائے غیر مشکل کبھی مرد میں ملحق هوتا هے اور کبھی عورت میں ملحق هوتا هےـ پهلی حالت میں وه عورت سے ازدواج کرنے کا حق رکھتا هے، اور دوسری حالت میں اسے مرد کے ساتھـ ازدواج کرنا چاهئے ـ دوسرے الفاظ میں "خنثائے غیر مشکل کے صیحح ازدواج" کے لئے صرف مندرجه ذیل دو فرض ممکن هیں:
پهلا فرض: خنثائے غیر مشکل (مردانه جنسیت کے غلبه والے) کا ایک عورت سے ازدواج
دوسرا فرض: خنثائے غیر مشکل (زنانه جنسیت کے غلبه والے) کا ایک مرد سے ازدواج ـ پهلے فرض میں، اگر خنثائے غیر مشکل، تغییر جنسیت انجام دے اور مکمل مرد میں تبدیل هوجائے، تو اس کے گزشته ازدواج پر کوئی اثر نهیں پڑتا هے ـ لیکن اگر تغییر جنسیت سے عورت میں تبدیل هوا، تو هم نئی حالت میں "عورت کے عورت"سے ازدواج کا مشاهده کریں گے ـ اس بنا پر سابقه ازدواج باطل هوگا ـ
دوسرے فرض میں، اگر خنثائے غیر مشکل، تغییر جنسیت کے ذریعه عورت میں تبدیل هوا، تو ان کا سابقه ازدواج برقرار هے، لیکن اگر مرد میں تبدیل هوا، تو ان کا سابقه ازدواج باطل هے ـ
دـ مرد یا عورت کے تغییر جنسیت سے خنثٰی میں تبدیل هونے کی صورت میں ازدواج کا باقی رهنا یا نه رهناـ
کبھی مرد یا عورت تغییر جنسیت کے نتیجه میں خنثٰی میں تبدیل هوتے هیں ـ اگرچه عملاً کوئی ایسا مصداق نهیں ملتا هے که کسی نے تغییر جنسیت کے ذریعه خنثٰٰی بننا پسند کیا هو ـ لیکن کبھی ڈاکٹروں (جراحوں) کی غلطی کے سبب یا کسی دوسرے عوامل کی وجه سے، ایک فرد خنثٰی میں تبدیل هوسکتا هے ـ اس صورت میں مندرجه ذیل فرضیات کو مد نظر رکھا جاسکتا هے :
پهلا فرض: تغییر جنسیت کے ذریعه مرد کا خنثائے مشکل میں تبدیل هوناـ
دوسرا فرض: تغییر جنسیت کے ذریعه عورت کا خنثائے مشکل میں تبدیل هونا ـ
تیسرا فرض: تغییر جنسیت کے ذریعه مرد کا خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هونا ـ
3ـ الف ـ مردانه جنسیت کے غلبه کے ساتھـ
3ـ ب ـ نسوانی جنسیت کے غلبه کے ساتھـ
چوتھا فرض: تغییر جنسیت کے ذریعه عورت کا خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هونا
4ـ الف : نسوانی جنسیت کے غلبه کے ساتھـ
4ـ ب : مردانه جنسیت کے غلبه کے ساتھـ
پهلے اور دوسرے فرض میں، که مرد یا عورت خنثائے مشکل میں تبدیل هوتے هیں، مشهور فقهائے اسلام کے مطابق، ان کا سابقه ازدواج باطل هوگا ـ تیسرے فرض، که مرد خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هوتا هے، اس کی دو حالتیں هیں:
حالت ـ3ـ الف: تغییر جنسیت کے ذریعه مرد خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هوا هے اور شرعی علائم و قرائن سے مردانه جنسیت کا غلبه رکھتا هے اس صورت میں تغییر جنسیت کے بعد، سابقه ازدواج بدستور برقرار هے ـ
البته اس وضاحت کے ساتھـ که مرد، تغییر سے پهلے مکمل مردانه جنسیت رکھتا تھا اور اس کے بعد شرعی علائم و قرائن کے مطابق مردانه جنسیت کا غلبه رکھتا هے ـ
حالت ـ 3ـ ب: تغییر جنسیت کے نتیجه میں مرد خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هوا هے که شرعی علائم و قرائن کے مطابق نسوانی جنسیت کا غلبه رکھتا هےـ اس صورت میں تغییر جنسیت سابقه ازدواج کے بطلاق کا سبب هوگا ـ
چوتھے فرض میں، که تغییر جنسیت میں عورت خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هوئی هے ـ اس کی دو حالتیں هیں:
حالت ـ 4 ـ الف: تغییر جنسیت میں عورت خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هوئی هے که شرعی علائم و قرائن کے مطابق اس میں نسوانی جنسیت کا غلبه پایا جاتا هے اور وه عورت میں ملحق هوتی هے ، اس کے سابقه ازدواج میں تغییر جنسیت کا کوئی اثر نهیں هوگا ـ
حالت ـ 4 ـ ب: تغییر جنسیت میں عورت خنثائے غیر مشکل میں تبدیل هوئی هے که شرعی علائم و قرائن کے مطابق اس میں مردانه جنسیت کا غلبه پایا جاتا هے اور وه مرد میں ملحق هے، تو تغییر جنسیت اس کے سابقه ازدواج کے بطلاق کا سبب هوگا ـ
[1] ملاحظه هو: مومن، محمد ، کلمات سدیدۃ فی مسائل جدیدۃ، ص 10: ایضاً سخنی درباره تغییر جنسیت ، مجلھ فقه اهل بیت (فارسی) ش 7، ص 97 : سید محسن خرازی، تفسیر الجنسیت، مجلھ فقھ اھل بیت (فارسی)، ش 23، ص 112: سید محمد صدر، ماوراء الفقھ، ج 6، ص 138 ـ
[2] ملاحظه هو: صفایی، سید حسین وامامی، اسد الله، حقوق خانواده، (تھران: دانشگاه تھران، 1374)، ص 46 ـ
[3] امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، (قم، اعتمادی، 1366)، ج 2، ص 627، مساله 3ـ
[4] ایضاً
[5] ایضاً
[6] ملاحظه هو: مطھری، احمد، مستند تحریر الوسیلۃ، ص 199: مومن، محمد، کلمات سدیدۃ فی مسائل جدیدۃ، ص 110ـ
[7] ملاحظه هو: مطھری، احمد، مستند تحریر الوسیلۃ، ص 199ـ
[8] امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ج 2، ص 627، مسالۃ 4ـ
[9] شیرازی، سید صادق، الفقھ و المسائل اطبیقه، (قم: یاس زھرا، 1427 ق)، ص 122.