Please Wait
13463
سوره نور کی آیت نمبر 31 میں اور بهت سی روایتوں میں عورت کے حجاب کی بیان هوئی هے ، خداوند عالم ، مذ کوره آیت میں ارشاد فرماتا هے: ((اور (اے رسول ) ایماندار عورتوں سے کهه دو که وه اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاهوں کی حفاظت کریں اور اپنے بناؤ سنگار(کے مقامات) کو ( کسی پر) ظاهر نه هونے دیں مگر جو خودبخود ظاهر هوجاتا هے (چھپ نه سکتا هو) (اس کا گناه نهیں ) اور اپنی اوڑھنیوں کو (سر سے لے کر ) اپنی گریبانوں (اورسینے) پر ڈالے رهیں اور اپنے شوهروں یا اپنے باپ داداؤں ۔ ۔ ۔ کے علاوه کسی پر اپنی زینت کو آشکار نه کریں اور اپنے پاوں اس طرح زمین پر نه پٹکھیں که لوگوں کو ان کے پوشیده بناؤ سنگار کی (جھنکار و غیره سے ) خبر هو جائے ۔ ۔ ۔ ))
اصول کافی میں حجاب کی حد سے متعلق متعدد روایات مذکور هیں جو باب(( عورتوں کے وجود کے جن حصوں کو دیکھنا جائز هے )) میں جمع کی گئی هیں ۔
مسعدۃ ابن زیاد امام صادق علیه السلام سے نقل کرتے هیں که جب امام علیه السلام سے عورتوں کے ان بناؤ سنگار کے بارے میں سوال کیا گیا جسے وه ظاهر کر سکتی هیں تو آپ علیه السلام نے فرمایا : چهره اور گٹّے تک دونوں هاﺘﮭ ۔
البته اسلام کی نظر میں چهره کو کھلا رکھنا اسی صورت میں مضائقه نهیں رکھتا جب چهره پر بناؤ سنگار نه هو یا بهت هی معمولی هو مثال کے طور پر چهره یا ابروؤں کا اصلاح هوئی هو (جو بعض ماحول اور عرف میں بناؤ سنگار شمار نهیں هوتی) ۔
عورتوں کے حجاب اور پرده کی اتنی اهمیت هے که خداوند عالم نے قرآن مجید میں اسے بیان فرمایا هے ، سوره نور میں ارشاد هوتا هے : ((اور (اے رسول ) ایماندار عورتوں سے کهه دو که وه اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاهوں کی حفاظت کریں اور اپنے بناؤ سنگار(کے مقامات) کو ( کسی پر) ظاهر نه هونے دیں مگر جو خودبخود ظاهر هوجاتا هے (چھپ نه سکتا هو) (اس کا گناه نهیں ) اور اپنی اوڑھنیوں کو (سر سے لے کر ) اپنی گریبانوں ( اورسینے) پر ڈالے رهیں اور اپنے شوهروں یا اپنے باپ داداؤں ۔ ۔ ۔ کے علاوه کسی پر اپنی زینت کو آشکار نه کریں اور اور اپنے پاوں اس طرح زمین پر نه پٹکھیں که لوگوں کو ان کے پوشیده بناؤ سنگار کی (جھنکار و غیره سے ) خبر هو جائے ۔ ۔ ۔ )) [1]
بهت سے علماء معتقد هیں که چهره اور دونوں هاﺘﮭ گٹے سے نیچے (وجه و کفین) حجاب کے حکم سے مستثنیٰ هیں اور آیت میں بھی اس استثناء کے بهت سے شواهد موجود هیں منجمله:
الف: مذکوره بالا آٰیت میں ظاهری بناؤ سنگار کو مستثنی کیا گیا هے ، چاهےاس کے معنی بناؤ سنگار کی جگه هو یا خود بناؤ سنگار هو یه خود اس امر کی دلیل هے که چهره اور گٹے سے دونوں هاتھوں چھپانا ضروری نهیں هے ۔
ب: مذکوره آیت میں اوڑھنیوں کے سر ے کو گریبانوں یعنی سینوں پر ڈ النے کا حکم جس سے مراد پورا سر ، گردن اور سینه چھپانا هے اور چهره چھپانے کا اس آیت میں کوئی ذکر هی نهیں هے یه همارے دعوے کا دوسرا قرینه هے [2]۔
تاریخ بھی اس بات کی گواه هے که صدر اسلام میں چهره پر نقاب ڈ النا عام نهیں تھا [3]۔
ائمه طاهرین علیهم السلام نے بھی بهت سی روایات میں اس آیت کی تفسیر میں حجاب اور پرده کی واجب مقدار بیان فرمائی هیں ۔
فضیل ابن یسار (امام صادق علیه السلام کے ایک صحابی) فرماتے هیں ، میں نے امام علیه اسلام سے سوال کیا : کیا ذراعین (گٹے سے گهنی تک) ان زینتوں میں سے هے جن کے لیئے خداوند عالم نے فرمایا هے که ایک عورت کو اپنے شوهروں کے سوا کسی اور پر ظااهر نهیں کرنا چاهئے ؟
تو حضرت علیه اسلام نے فرمایا : هاں اور بدن کا وه بھی حصه جو اوڑھنی کے نیچے هے وه بھی زینت شمار هوتا هے ۔ ۔ ۔ ))[4]
اسی طرح مسعدۃ بن زیاد امام صادق علیه السلام سے نقل کرتے هیں : که جب امام علیه السلام سے اس زینت کے بارے میں سوال کیا گیا جنھیں عورتیں ظاهر کر سکتی هیں تو آپ علیه السلام نے فرمایا (( چهره اور کفین (گٹے تک دونوں هاﺘﮭ ) ))[5]
البته دو نکته پر توجه ضروری هے :
۱۔ اسلام کی نظر میں عورت کے چهره کا کھلا رهنے میں اس صورت میں کوئی مضائقه نهیں هے جب وه بناؤ سنگار کے بغیر هو یا بهت هی معمولی بناؤ سنگار هو جسے عرف عام میں بناؤ سنگار شمار نهیں کیا جاتا اور ساﺘﮭ هی اس سے کسی فساد کا ڈ ر بھی نه هو۔[6]
۲۔ جن موارد میں یه کها جاتا هے که چهره و کفین کا چھپانا ضروری نهیں هے اس کے یه معنی نهیں هےکه اس کی طرف مردوں کے نگاه کرنے میں بھی کوئی مضائقه نهیں هے اس لئے که ان دونوں میں کوئی تلازم نهیں هے اور جس مطلب پر یهاں بحث هوئی هے وه پهلا مسئله هے ۔[7]
[1] سوره مبارکه نور /31
[2] توضیح : اس آیت کی شأن نزول کے سلسله میں کها گیا هے که اس زمانے میں عرب کی عورتیں اس طرح اوڑھنی اوڑھتی تھیں که اس کے سرے کو شانوں کے اوپر سے پیچھے ڈال دیتی تھیں اس طرح که اوڑھنی ان کے کانوں کے پیچھے هوتی تھی اور فقط سر اور گردن کو چھپاتی تھیں ، لیکن گلے کے نیچے کا حصه اور سینے کا ﮐﭽﮭ حصه جو گریباں کے اوپر هوتا هے، کھلا رهتا تھا ۔ اسلام نے اس صورت حال کی اصلاح کی اور حکم دیا که اوڑھنی کے سرے کو کان یا سر کے پیچھے سے آگے لاکر گریبان اور سینے پر ڈالیں جس کے نتیجه میں صرف چهره کھلا ره جاتا تھا اور باقی بدن چھپا رهتا تھا۔
[3] تفسیر نمونه ، ج 14 ۔ صص450-451
[4] عن الفضیل بن یسار قال : سألتُ ابا عبد الله علیه السلام عَن الذّارعین منَ الامرأۃ أ ھما منَ الزّینۃ الّتی قال الله تبارکَ و تعالیٰ :ولا یُبدینَ زینتھنَّ الّا لِبعولتھنّ قالَ:نعَم وما دونَ الخمار من الزّینۃ و ما دونَ السِِّوارَین ، اصول کافی ، ج 5 ، ص521 ، باب یحل النظر الیه من المرأۃ
[5] "عبدُ الله بن جعفرفی قرب الاسنادِ عن ھارونَ بن مسلم عن مسعدۃ ابن زیادٍ قال: سمِعتُ جعفراًو سئلَ عمّا تظهرُ المرأۃُ من زینتها قالَ : الوجهَ و الکَفَّین "، وسائل الشیعۃ ، ج 20 ۔ ح25429 ، ص203 ، باب یحل النّظر الیه من المرأۃ بغیر التلذذ۔
[6] دیکھئے استفتائات امام خمینی (ره) ، ج 3 ، ص256 ،سوال 33-34 ؛ توضیح المسائل (المحشی للأمام الخمینی) ، ج 2 ،ص929 ؛ عنوان : عورت اور بناؤ سنگار کو ظاهر کرنا ۔ سوال نمبر 598 (سائت:651 ) اس مسئله کی فقهی و روائی بحث کی مزید شرح فقه کے مباحث نکاح میں آئی هے ۔
[7] مزید معلومات کے لئے دیکھئے :مسئله حجاب ، مطهری ،مرتضیٰ ، ص164 - 235 ۔