Please Wait
7664
فلسفیانہ نقطہ نظر سے مخلوقات کے کمال کا سفر، ان کے، پست ترین حد سے وجود کے بلند ترین درجہ پر پہنچنے تک ، ہمیشہ اس طرح ہے کہ وجودی کمال کا تنزل یافتہ پست مرتبہ، بلند تر ھوتا ہے اور بلند تر مرتبہ کے بھی اپنے ماوراء مراتب ھوتے ہیں- اس سلسلہ کے ایک جانب، وجود مطلق واقع ہے کہ اس میں اطلاق کی حد تک تمام کمالات پائے جاتے ہیں، ان کمالات میں ارادہ و اختیار کی صفت بھی ہے جو وجود کے تمام مراتب میں ہر مخلوق کی ظرفیت کے مطابق تنزل پاچکی ہے- اس نظریہ کے مطابق تمام مخلوقات میں ارادہ اور اختیار کی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں اور مشیت الہی تمام مراتب میں مخلوق کے وجود کی راہ سے صادر ھوتی ہے-
اس بنا پر، اس سوال کا بنیادی حصہ کہ اگر انسان دوسری مخلوقات کے مانند بغیر ارادہ و اختیار کمال تک پہنچ جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ فلسفیانہ لحاظ سے یہ سوال غلط مفروضوں پر مبنی ہے اور جبری کمال کا نا ممکن ھونا اس وجہ سے ہے کہ جب ارادہ و اختیار وجود کے ذاتی امور میں سے ھو، تو یہ تصور کرنا کہ کوئی مخلوق جبری طور پر کمال تک پہنچ جائے گی، کے یہ معنی ہیں کہ وجودی کمال ھوتے ھوئے بھی اختیار میں کمال نہیں ھوگا، جبکہ یہ دونوں ایک ہی امر ہیں اور انسان ھونے کی خصوصیت میں بھی اختیار کے بلند ترین حد میں قرار پایا ہے جو اس کا خلافت الہی کا مقام ہے اور یہ مقام بھی اس کے اختیار میں ہے جو اس کے، تمام دوسری مخلوقات پر افضل ھونے کا سبب بنا ہے اور اس سے محروم ھونا ، در حقیقت اس کے لئے اس منزلت سے محروم ھونا اور عیب و نقص شمار ھوتا ہے-
بہ الفاظ دیگر، کوئی ایسا کمال نہیں ہے ، مگر یہ کہ وجود کے مراتب میں کمال، اور مراتب وجود میں عین کمال اس کے مراتب کے اختیار میں ہے کہ عرفا نے اسے عشق سے تعبیر کیا ہے کہ یہ وہی الہی امانت ہے اور اختیار کی اصلی ذات بھی شمار ھوتی ہے اور خلافت الہی، جو انسانی کمال کا عروج ہے، حقیقت میں عشق الہی میں فنا ھونا اور خدا کا باقی رہنا ہے { بقائے باللہ} کہ ذاتا اختیار کے عالی ترین درجہ کا لازمہ ہے-
انسان کے کمال کے لئے ضروری اختیار کے بارے میں پیش کیا گیا سوال، فلسفیانہ ھونے اور فلسفیانہ جواب کے بجائے زیادہ تر ایک کلامی شبہہ ہے اور کلامی مباحث سے متاثر ھوکر پیش کیا گیا ہے- لیکن اگر ہم فلسفیانہ نقطہ نظر کے تحت اس بحث کی گہرائیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں کمال کی بحث کے بارے میں، وجود کے مراتب اور عدل الہی کے بارے میں اختیار کے مقام کو مد نظر رکھنا چاہئے-
فلسفہ متعالیہ اور نظری عرفان ان مباحث کا ایک نتیجہ ہمارے اختیار میں قرار دے سکتے ہیں، جو اس قسم کے بہت سے ابہامات اور اعتراضات کا جواب ھوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ عالم ہستی کے بارے میں اس نظر یہ کے عمیق ھونے کی وجہ سے پیش کئے گئے شبہات خود بخود دور ھوجائیں-
کمال حاصل کرنے میں فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے ارادہ و اختیار کے رول کو بیان کرنے کے لئے، یہ مقدمہ بیان کرنا ضروری ہے کہ کمال کی راہ میں وجودی حرکت قوس کی صورت میں صعودی حالت میں محض مادہ کے مرحلہ سے شروع ھوکر خلافت الہی کے مقام تک پہنچنے کے لئے جاری ہے اور یہی عالم ہستی کی غرض و غایت شمار ھوتی ہے-
وجود کا ہر مرتبہ اور کمال کا ہر درجہ اس کے پست ترین حد سے عالی رتبہ تک، وجود کے ایک درجہ سے متعلق ہے اور وہ حق تعالی سے تقرب کا اندازہ بتا تا ہے اور ہر مرتبہ کے ماورا کمالات ھوتے ہیں اور نچلے مراتب بھی بالاتر مراتب رکھتے ہیں، لیکن تنزل والی حد میں-
اس طرح مختلف وجودی کمالات ہر مخلوق میں اس کی وجودی شدت کے مطابق ارتقاء پاتے ہیں اور یہ کمالات تنزل پا کر قابلیت کی حد میں آشکار ھوتے ہیں- ان وجودی کمالات میں سے ایک وہی ارادہ و اختیار کی صفت ہے اور ہر مرتبہ پر اس کی ایک خاص حد ظاہر ھوتی ہے-
عرفا نے بعض اوقات اس کو عام مفہوم سے، جو تمام مخلوقات میں جاری ہے، عشق سے تعبیر کیا ہے اور قرآن مجید میں بھی مخلوقات کے سجدہ اور تسبیح کی تعبیرکی گئی ہے-
اس نظریہ سے کوئی بھی مخلوق حتی کہ جمادات اور نباتات بھی اس قاعدہ سے مستثنی نہیں ہیں-
اس طرح ملاہادی سبزواری نے عالم وجود میں اختیار کے مراتب کے بارے میں یوں بیان کیا ہےکہ:" اس کے پیش نظر کہ تمام اشیاء قادر مختار کے مظاہر ہیں اور اس نظر سے اختیار رکھتے ہیں ، حتی کہ جمادات بھی اپنے وجودی ظرفیت کے مطابق اختیار رکھتے ہیں ، پس بندہ قادر مختار کا مظہر ہے اور اسی طریقے سے اس میں قدرت و اختیار ہے"-[1]
اس بنا پر، جب ارادہ کی صفت ، بلکہ اختیار کی صفت کو وجود کی ذات میں اس کے تمام مراتب کے ساتھ ہم اخذ کریں اور انھیں ذاتی وجود جان لیں، تو ہمیں معلوم ھوگا کہ فلسفیانہ لحاظ سے ایسا وجود ممکن نہیں ہے جو اصلی تکاملی ارادہ اور اختیار نہ رکھتا ھو اور یہ تصور کہ کوئی موجود جبری طور پر کمال حاصل کرسکے، اس معنی میں ہے کہ وجودی کمال رکھتے ھوئے اختیار نہ رکھتا ہو- اب جبکہ یہ دو امور ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں انسان کے بارے میں بھی جس کو بلند ترین اختیار حاصل ہے، اس کی الہی خلافت کا مقام بالکل اس کے اختیارات کا مقام ہے جو اس کے تمام مخلوقات پر فضیلت پانے کا سبب بنا ہے، اور اس سے محروم ھونا حقیقت میں اس کے اس مقام و منزلت سے محروم ھونے کے مترادف ہے اور یہ غرض و غایت میں عیب و نقص شمار ھوتا ہے-
بہ الفاظ دیگر، وجود کے کسی بھی مرتبہ کا اختیار، ایک ثانوی امر نہیں ہے، بلکہ اس مرتبہ کے ذاتی امور کا حصہ شمار ھوتا ہے – اس بنا پر اسے وجود کی ذات سے جدا کرنا نا ممکن ہے-
اس لحاظ سے فلسفیانہ نقطہ نظر کے مطابق، عالم ہستی میں اس کے مختلف مراتب میں جو ہر سو شعور و آگاہی پائی جاتی ہے، بنیادی طور پر کسی قسم کا جبر نہیں ہے، کہ صرف انسان اس سے مثتسنی قرار پایا ھو، بلکہ اس کے برعکس نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات عدم تفویض کے ھوتے ھوئے اختیار کے قاعدے میں شامل ھوتی ہیں، لیکن انسان ایک خاص حد میں اختیار کا مالک بنا ہے جو اس کی الہی خلافت کا لازمہ ہے اور اسے امانت الہی کی تعبیر سے بھی یاد کیا گیا ہے اور یہی مقام، انسان کا اصلی مقام اور کائنات کی تمام مخلوقات پر برتری کا سبب بھی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوا ہے «إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا»؛[2]" بیشک ہم نے امانت کو آسمان، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے-"
اس بنا پر انسان کے بارے میں، کلی طور پر کمال اور خاص طور پر الہی خلافت و ولایت ، اختیار کے بغیر عقلا نا ممکن ہے- اس لحاظ سے ابتداء سے ہی خداوند متعال کا ارادہ اپنی مخلوقات کے بارے میں عالی ترین فیض پر مبنی تھا، لیکن ذاتی طور پر مخلوقات کے اقتضاآت اس فیض کے مکمل طور پر ظاہر ھونے میں رکاوٹ بنے ہیں-
ہر چہ ہست از قامت نا ساز بی اندام ماست
ورنہ تشریف تو بر بالا کسی کوتاہ نیست
مذکورہ بیان سے ظاہر ھوا ہے کہ وجودی کمال، عین اختیارات میں کمال ہے اور اس کی عالی ترین حد خلیفہ خدا ھونا ہے، جو عالی ترین درجہ اختیارکرنے کا لازمہ ہے- اور عرفانی نقطہ نظر سے بھی الہی خلافت اپنی ذات میں اس معنی میں ہے کہ انسان بالآخر خدا کے عشق میں فنا ھو جائے اور خدا وند متعال کے باقی رہنے سے باقی رہے اور یہ بلند ترین عشق کا لازمہ ہے اور عشق بھی اختیار کی ذات ہے، اس بنا پر انسان کے سر انجام کمال کا تصور جو مشیت الہی کے تحت ھونے کی عکاسی ہے، عشق کے گوہر کے بغیر ذاتی طور پر نا ممکن ہے اور عشق جبر سے حاصل ھونے والی چیز نہیں ہے، بلکہ عشق اختیار کا اصلی جوہر ہے-[3]
[1] قدر دان قرا ملکی، محمد حسین، نگاه سوم به جبر و اختیار، ص 159، نقل از سبزواری، ملاهادی، اسرار الحکم، ص 113.
[2] - احزاب، 72.
[3] اس بحث میں مزید تحقیق کے لئے، " امر بین الامرین" سے متعلق فلاسفہ اور عرفا کے نظریہ اور عالم برزخ میں ارادہ و اختیار کے مراتب کی بحث کا مطالعہ کرسکتے ہیں-