Please Wait
11036
جو کچھ نہج البلاغہ میں بیان کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مرد کی غیرت ایمان کی علامت ہے اور عورت کی غیرت کفر کی علامت ہے اور قابل توجہ بات ہے کہ دوسری روایتوں کی تحقیق کے بعد اگر ہم عورت کی غیرت کو شو ہر سے محبت ا ور اس کے ساتھ مشترک زندگی کو جاری رکھنے کی چاہت اور دوسری کسی عورت کی طرف سے چلینج نہ ھو نے سے تعبیر کریں، چنانچہ اکثر عورتوں میں ایساہی ھوتا ہے، تو اس قسم کی محبت کو کفر کی علامت نہیں کہا جاسکتا ہے- لیکن اگر عورت اپنی غیرت کے ذریعہ، اسلامی قوانین اور خاص شرائط کے تحت کئی بیویاں رکھنے کے حق کو چلینج کر کے اسے نا انصافی قرار دینا چاہے، تو اس نے قرآن مجید میں اشارہ شدہ اسلام کے مسلم قانون کی مخالفت کی ہے، اس لئے وہ کفر کے خطرہ سے دوچار ہوگی۔
ضمنا ایسی ر وایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن کے مطابق مردو ں کی بے جا غیرت کی بھی مذمت کی گئی ہے اور نتیجہ کے طور برتاو کے بارے میں صحیح حساسیت ، خواہ مرد کی طرف سے ھو یا عو رت کی طرف سے، وہ پسندیدہ ھو گی، لیکن بے جا غیرت دو نو ں{ مرد اورعورت} کی طرف سے صحیح نہیں ہے-
نہج البلاغہ میں، امیرالمومنین{ع} سے منسوب کلام میں عورت کی اپنے شوہر کی دوسری شادی کے بارے میں راضی نہ ھونے کی صراحت نہیں کی گئی ہے، بلکہ یہ کلام یوں ہے کہ:" غیرة المرأة کفر و غیرة الرجل إیمان"، [1] اس کے یہ معنی ہیں کہ" اگر عو رت غیرت کا مظاہرہ کرے، تو وہ کفر کی ایک علامت ہے اور اگر مرد کی طرف سے ھو تو، ایمان کی علامت ہے-''
شائد پہلی نگاہ میں، یہ سمجھنا آسان نہیں ھوگا کہ اس کلام سے حضرت علی {ع} کی مراد کیا تھی اور اس سے ہمارے آئمہ اطہار {ع} کی طرف سے عورتوں کے ساتھ کسی حد تک امتیازی سلوک کی تعبیر کی جاسکتی ہے- لیکن تھوڑے سے غور و فکر کرنے سے یہ تصور زائل ھو سکتا ہے-
عربی ادبیات کے ماہروں کے کلام پر تحقیق کرنے سے یہ معلوم ھوتا ہے کہ وہ لفظ " غیرت" کو ایسے مواقع پر استعمال کرتے ہیں کہ جہاں پر موضوع کے بارے میں شدید رد عمل پیدا ھوتا ہے-
مختصر حدود اور خاندان کے ماحول میں "غیرت" میاں بیوی میں سے ہر ایک کی طرف سے جنس مخالف کے ساتھ روابط کا رد عمل، حسا سیت اور مخالفت جان سکتے ہیں- اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مرد یا عورت کی طرف سے غیرت پر مبنی ہر رد عمل، اسلام کے لئے قابل قبول ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق غیرت سے استفادہ کئے جانے والے مختلف مواقع کی تحقیق کریں گے:
۱- بیوی کے نا جائز روابط کے سلسلہ میں مرد کی غیرت: خدا وند متعال نے مردوں کو گھر کا ناظم اور ایڈ منسٹریٹر قرار دیا ہے اور اس ذمہ داری کے لئے کچھ دلائل بھی بیان کئے ہیں، مثال کے طور پر، چونکہ خاندان کی مالی ذمہ داری مرد کے ذمہ ہے، گھر کا نظم و نسق بھی اسی کے ہاتھ میں ھونا چاہئیے- [2] ایک با ایمان مرد کو، گھر کی مالی ذمہ داریوں کے علاوہ گھر کے ثقافتی نظم و انتظام سے بھی غافل نہیں ھونا چاہئیے اور اسے کوشش کرنی چاہئیے کہ ممکنہ حد تک اپنے آپ اور اپنے نظم و انتظام کے تحت افراد کو گمراہیوں سے بچائے- [3]
ظاہر ہے، کہ با ایمان عورتیں بھی اپنے شرعی فرائض سے آگاہ ھوتے ھوئے اسلامی تعلیمات کے خلاف اقدامات سے پرہیز کرتی ہیں- لیکن اگر کسی خاندان کا ایڈ منسٹریٹر احساس کرے کہ شیاطین کے وسو سے آشکار و پنہاں صورت میں اس کی بیوی بچوں کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں اور اس کے باوجود وہ رد عمل کا مظاہرہ نہ کرے، تو اسلام اسے ایک نا مطلوب عنصر کے عنوان سے پہچانتا ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے- [4] قدرتی بات ہے کہ اس قسم کے نا پسند کردار کے مقابلے میں رد عمل کا مظاہرہ کرنا اس کے ایمان کی علامت ہے اور اس کی ستائش کی جانی چاہئے اور کہنا چاہئیے کہ" غیرۃ الرجل ایمان-"
۲- بیوی کے جائز روابط پر مرد کی غیرت: لیکن کیا مرد کو اپنی بیوی بچوں کی ہر روش کے بارے میں بدظن ھونا چاہئیے اور حتی کہ اگر وہ غیر شرعی فعل کے مرتکب نہ ھوئے ھوں، پھر بھی ان پر شدید نظر رکھے اور نام نہاد غیرت کا مظاہرہ کرے؟؛
ہمارے آئمہ اطہار {ع} کی تعلیمات کے مطابق مردوں کو جائز اور حلال امور کے بارے میں غیرت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے اور مردوں کی طرف سے اس قسم کی غیرت قابل مذمت و سرزنش ہے اور سر انجام مناسب بھی نہیں ھوگی-
مولا علی {ع} اپنے بیٹے امام حسن مجتبی{ع} کے نام اپنی وصیت میں یوں نصیحت فرماتے ہیں:" شدت کے ساتھ ھوشیار رہنا، جن امور کے بارے میں غیرت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ کام انجام نہ دینا؛ بیشک اس قسم کے کام کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تندرست افراد بیمار ھوں گے اور پاک افراد، گناہوں کے مرتکب ھوں گے"- [5]
امام علی{ع} نے اپنے اس کلام میں ایک اہم نفسیاتی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور مردوں کی طرف سے اپنی بیویوں کے بارے میں غیرت کے نام پر بے جا حساسیت کی مذمت فرمائی ہے، جس کے ذریعہ وہ اپنی بیویوں کی ہر قسم کی اجتماعی سر گرمیوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں-
۳- شوہروں کے ناجائز تعلقات پر عورتوں کی غیرت: کیا صرف اس کے لئے کہ مذکورہ سوال کی روایت کے مانند بعض روایتوں کے استناد پر یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ غیرت کا مظاہرہ کرنا صرف مردوں کا کام ہے اور بیوی کو اپنے شوہر کے غیر شرعی کردار کے بارے میں کسی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے اور اسے صرف خدا پر چھوڑنا چاہئیے؟؛
ہمارا جواب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق، معاشرہ میں عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے اور امکانی حد تک انھیں بھی گمراہیوں اور برائیوں کو روکنا چاہئے- ہم قرآن مجید کی ایک آیت میں پڑھتے ہیں:" مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں-" [6]
اس بنا پر اگر کوئی مسلمان خاتون، اپنے شوہر کو نا جائز اور غیر شرعی روابط سے روکے، تو اس نے اپنے دینی فریضہ پر عمل کیا ہے اور اس کے برعکس اگر اس موضوع کے بارے میں لا پروائی سے کام لے، تو اس نے بھی گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور خدا کے سامنے جواب دہ ھوگی-
۴-مردوں کے جائز اور شرعی روابط پر عورتوں کی غیرت: فطری طور پر، عورتیں اپنے شوہروں کے جنس مخالف کے ساتھ ہر قسم کے روابط پر حساس ھوتی ہیں اور نہیں چاہتی ہیں کہ کوئی دوسری عورت اس کی ازدواجی زندگی میں مداخلت کرے-
دوسری جانب، جو شخص، اسلامی احکام کے بارے میں مختصر معلومات بھی رکھتا ھو، وہ بخوبی جانتا ہے کہ مرد، چند شرائط کی بنا پر، کئی بیویاں رکھ سکتا ہے اور اس موضوع کی طرف بھی قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے [7] ، اگر چہ حقیقی اعداد و شمار اور مرد و زن کی تقریبا مساوی آبادی اور ازدواج کے بارے میں مردوں کے لئے اسلام کی نصیحتوں کے پیش نظر ایک فی صدی سے بھی کم مرد دوسری شادی کرسکتے ہیں- بہر حال، ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ اسلام کی طرف سے مرد کو کئی بیویاں رکھنے کی اجازت کی دلیل کے پیش نظر اس سلسلہ میں آپ کے لئے کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ھوگا- [8]
مذکورہ بیان کے پیش نظر، بیویوں کے، اپنے شوہروں کے جائز روابط کے بارے میں غیرت کی دو حصوں میں تقسیم بندی کی جاسکتی ہے: -
۴-۱ جو غیرت محبت پر مبنی ھو: یعنی ایک عورت جانتی ھو کہ اس کے شوہر کی طرف سے کسی دوسری عورت کے ساتھ دائمی یا عارضی ازدواج کا اقدام، شرع کے خلاف نہیں ہے، لیکن وہ عورت صرف اپنے شوہر سے محبت و دلچسپی اور اپنی آئیندہ ازدواجی زندگی کے بارے میں تشویش اور پریشانی کی وجہ سے اسلامی حکم کے خلاف کوئی اعتراض کئے بغیر مختلف طریقوں سے اپنے شوہر کو اس کے اس فیصلے پر عمل پیرا ہونے سے روکے- یہ وہ موضوع ہے کہ اکثر عورتوں کے غیرت پر مبنی ردعمل کی اسی پیرائے میں توجیہ کی جاسکتی ہے، کیا اس قسم کی غیرت بھی عورتوں کے لئے کفر آمیز ہے؟
اس سوال کا جواب، اسحاق بن عمار کی بیان کی گئی روایت ہے- اس نے روایت کی ہے کہ: میں نے امام صادق{ع} کی خدمت میں عرض کی کہ ایک عورت اپنے شوہر کے بارے میں غیرت سے کام، لیتی ہے، اس لحاظ سے اسے اذیت و آزار پہنچاتی ہے- امام {ع} نے اس سلسلہ میں اس عورت کو قصور وار ٹھرائے بغیر اعلان فرمایا کہ: اس قسم کی غیرت کی وجہ اس عورت کی اپنے شوہر سے محبت ہے"- [9]
اس سلسلہ میں ذرا غور کیجئے، امام معصوم، نے یہاں پر عورتوں کی غیرت اور رد عمل کو کفر آمیز نہیں جانا ہے، بلکہ اس کو محبت کی نشانی بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اس کے ساتھ بدظنی پر مبنی برتاو نہیں کرنا چاہئے اور اس کی اپنے شوہر سے محبت کو کفر کے برابر نہیں جاننا چاہئے-
۴-۲- وہ غیرت جو اسلام کے حکم کو قبول نہ کرنے پر مبنی ھو: اگر چہ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان فر مایا ہے کہ مردوں کو دوسری شادی کرنے کا نا جائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئیے- اور اپنی ہوس رانی پر مشتمل کئی شادیاں کرکے خاندان کی بنیادوں کو متزلزل نہیں کرنا چاہئے، [10]
لیکن اگر کوئی مرد، کسی وجہ سے ضروری شرائط کی رعایت کرتے ھوئے دائمی یا عارضی طور پر دوسری شادی کرنے کا اقدام کرے، تو اس کی بیوی کو ایسا برتاو نہیں کرنا چاہئے جس سے حکم الہی کی خلاف ورزی تصور کی جائے، کیونکہ اس قسم کا برتاو، سر انجام کفر پر تمام ھوتا ہے اور با ایمان عورتیں ہر گز ایسا کام نہیں کرتی ہیں کہ اس سے کفر کی بو آتی ھو- [11]
نہج البلاغہ کی مذکورہ حدیث یعنی" غیرۃ المراۃ کفر" بھی اس معنی میں ہے اور اس میں عورتوں کی طرف سے اس قسم کی بے جا غیرت، کفر اور ناشکری شمار ھوتی ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا، مردوں کی بے جا غیرت بھی اپنی جگہ پر قابل مذمت قرار پائی ہے- اس بنا پر اور ان روایات کی تحقیق کے پیش نظر، اور ان کے دوسری آیات و روایات کے مطابق ھونے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امام علی {ع} نے عورتوں کی صحیح غیرت کی تنقید کی ہے اور نہ مردوں کی غلط غیرت اور رد عمل کی تائید کی ہے-
آخر میں جاننا چاہئے کہ جس کفر کے بارے میں اسلامی کتابوں میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ اصطلاحی کفر نہیں ہے اور نجاست کا سبب نہیں بن سکتا ہے، بلکہ ان کتابوں میں بعض دوسرے کفران نعمت کو بھی "کفر" کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے-
[1] نهج البلاغة، ص 491، حکمت 124، انتشارات دار الهجرة، قم، تاریخ کے بغیر.
[2] نساء، 34؛ "الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساء".
[3] تحریم، 6؛ "يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْليكُمْ ناراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجارَة".
[4] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 5، ص 536، ح 5-2، دار الکتب الاسلامیة، تهران،
1365 ش.
[5] هج البلاغه، ص 405، کتاب 31.
[6] توبه، 71؛ "الْمُؤْمِنُونَ وَ الْمُؤْمِناتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِياءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ".
[7] نساء، 3؛ "فَانْكِحُوا ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوا فَواحِدَةً".
[8] اس کے علاوہ آپ عنوان: شرایط ازدواج مجدد و چندمسری، سؤال 3103 (سایٹ: 3368)، سے استفادہ کر سکتے ہیں.
[9] کافی، ج 5، ص 506، ح 6.
[10] نساء، 129؛ "فَلا تَميلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوها كَالْمُعَلَّقَةِ وَ إِنْ تُصْلِحُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ غَفُوراً رَحيماً".
[11] کافی، ج 5، ص 505، ح 2. کافی، ج 5، ص 505، ح 2.