Please Wait
12126
تعبد کی بنیاد عبد و عبودیت ہے، اس کے معنی بندگی و پرستش ہیں اور روایتوں میں بھی تعبد اسی معنی میں آیا ہے-
فقہا اور متشرع اشخاص نے تعبد کو دوسرے معنی میں بھی استعمال کیا ہے- جن امور میں تعبد کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ان میں سے ایک وہ جگہ ہے جہاں پر دلیل کی ضرورت نہ ھو-
ہرشخص کا اصول دین اور عقیدہ کسی دلیل پر مبنی ھونا چاہئے لیکن فروع دین میں اس قدر کافی ہے کہ ثابت ھو جائے کہ یہ حکم خدا کی طرف سے ہے اور اس میں تحقیق و استدلال اور سبب و فلسفہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے، جب سوال ھوتا ہے کہ ہم صبح کو نماز کیوں دو ہی رکعت پڑھتے ہیں تو، اس کے جواب میں کہا جاتا ہے: کہ یہ تعبدی ہے { ہمیں اسے قبول کرنا چاہئے اور اس کے لیے استدلال کی ضرورت نہیں ہے}
اصولیوں میں بھی واجب تعبدی ، توصلی کے مقابلے میں استعمال ھوتا ہے، یعنی یہ وہ واجب ہے کہ اس کے صحیح ھونے اور خدا کی طرف سے اسے قبول کرنے میں قصد قربت اور عمل کا صرف خدا کے لئے ھونا شرط ہے، مثال کے طور پر نماز، روزہ، حج وغیرہ-
واجب توصلی ایسا واجب ہے، جس میں خدا کی جانب سے صحیح ھونے کے لئے قصد قربت عمل کا صرف خدا کے لئے ھونے کی شرط نہیں ہے، اگر چہ اس کی قبولیت اور ثواب حاصل کرنے کے لئے قصد قربت کی شرط ہے- مثال کے طور پر میت کی تدفین اور کپڑے دھونا وغیرہ-
تعبد کی بنیاد عبد و عبودیت ہے، اس کے معنی بندگی و پرستش ہیں اور روایتوں میں بھی تعبد اسی معنی میں آیا ہے-[1]
جن امور میں تعبد کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ان میں سے ایک وہ جگہ ہے جہاں پر دلیل کی ضرورت نہ ھو-
خدا کے بندوں اور مکلفین کے فرائض اعتقادی اور عملی کے دو حصوں میں تقسیم ھوتے ہیں ، ان میں سے پہلی قسم کو اصول دین اور دوسری قسم کو فروع دین کہا جاتا ہے-
اصول دین میں ہر شخص کا عقیدہ دلیل پر مبنی ھونا چاہئے[2] لیکن فروع دین سے متعلق اکثر موضوعات میں اسی قدر کافی ہے کہ دلیل ثابت ھوجائے کہ ایک حکم خدا کی جانب سے ہے اور اس کے لئے تحقیق، فلسفہ، سبب اور استدلال کی ضرورت نہیں ہے – عام طور پر جب سوال کیا جاتا ہے کہ مثال کے طور پر ہمیں صبح کی نماز کیوں دو رکعت پڑھنی چاہئے، تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ: یہ تعبدی ہے{ اسے قبول کرنا چاہئے اور اس کے لیے استدلال کی ضرورت نہیں ہے}
اس لحاظ سے کہاگیا ہے کہ دینی احکام جو خدا وند متعال کی طرف سے معین ھوئے ہیں، تعبدی ہیں-[3]
عبادی امور کو استدلال کی کیوں ضرورت نہیں ہے؟
عبادی امور، فروع دین میں سے ہیں، جیسا کہ ان کے نام سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ امور اصول دین کے فروع ہیں، یعنی جب ہم نے خداوند متعال کو عالم ھونے، حکیم ھونے اور عادل وغیرہ ھونے کی صفات سے پہچان لیا تو ہم اجمالی طور پر جانتے ہیں کہ اگر خداوند متعال نے ہمیں بعض امور کے سلسلہ میں مکلف کیا ہے، تو یقینا اس میں ہمارے حق میں مصلحت اور نفع ہے کہ اس قسم کی چیز کا تقاضا ہے-
اس کے علاوہ ممکن ہے احکام کے اسباب و فلسفہ کو جاننا ہمارے فائدے میں نہ ھو اور یہ چیز ہمارے خلوص اور قصد قربت کو گھٹادے- مثال کے طور پر روزہ دار جان لے کہ روزہ اس کی بیماری کے لئے فائدہ بخش ہے، اس شخص کے مقابلے میں جو اس قسم کی اطلاع نہیں رکھتا ہے اور مکلف تعبدی عمل کو فرمانبرداری کے جذبہ سے بجا لاتا ہے اور جس قدر تعبد زیادہ ھو متعبد کی روح میں فرمانبرداری کا جذبہ مستحکم تر ھوتا ہے اور اسلام اس کے تمام نفس پر چھا جاتا ہے اور بہ الفاظ دیگر اس کی تمام توانائیاں اور نفسانی محرکات تسلیم حق ھوتے ہیں- اس لحاظ سے اگر عبادت خاص تعبد اور فرمانبرداری سے تھوڑی سی ہٹ جائے اور کسی منافع یا رفع ضرر کی طرف متوجہ ھوجائے، تو چونکہ عبادت کی روح اور حقیقت متحقق نہیں ھوئی ہے، اس لئے یہ عمل باطل ہے- شائد اسی وجہ سے عبادت کے تمام اسرار سب لوگوں پر مجہول ہیں اور جو کچھ مختصر معلوم ہے وہ تعبد اور نیت میں توجہ کا سبب نہیں بننا چاہئے تاکہ تعبد اپنے کمال تک پہنچ سکے-[4]
دوسری جگہ، جہاں پر تعبدی اصطلاح استعمال ھوئی ہے، وہ علم اصول فقہ ہے- یہاں پر یہ اصطلاح، توصلی کے مقابلے میں استعمال ھوئی ہے اور اس کی تعریف حسب ذیل ہے-
واجب تعبدی، وہ واجب ہے، جس کے صحیح اور خدا کی جانب سے قبولیت کے لئے قصد قربت اور عمل کا صرف خدا کے لئے ھونا شرط ہے، مثال کے طور پر نماز، روزہ، حج وغیرہ-
واجب توصلی، وہ واجب ہے، جس میں قصد قربت اور عمل کے صرف خدا کے لئے ھونے کی شرط نہیں ہے اگر چہ اس کی قبولیت اور ثواب حاصل کرنے کے لئے قصد قربت شرط ہے، مثال کے طور پر میت کی تدفین، اور کپڑے دھونا وغیرہ-
وضاحت:
شریعت اسلام میں موجود واجبات کی، مختلف نظریات کے مطابق تقسیم [5]بندی کی گئی ہے: واجب عینی، واجب کفائی، واجب تعیینی، واجب تخییری، واجب تعبدی، واجب توصلی، واجب مطلق، واجب نفسی اور واجب مشروط وغیرہ-
واجب تعبدی: مثال کے طور پر نماز، روزہ، خمس، زکواۃ وغیرہ کہ ان کے صحیح ھونے میں قصد قربت شرط ہے-
واجب تو صلی : مثال کے طور پر ڈوبنے والے کو نجات دینا اور نفقہ ادا کرنا کہ اس کے صحیح ھونے میں قصد قربت شرط نہیں ہے-
اس بنا پر تعبد وہ ہے کہ جس میں قصد قربت اور خلوص معتبر ہے اور اس کے بغیر فاسد ہے-
لیکن توصل، وہ ہے کہ جس میں قصد قربت و خلوص ضروری نہیں ہے اور اس کے بغیر عمل فاسد نہیں ھوتا ہے بلکہ اس کے بغیر ثواب اور اجر نہیں ملتا ہے-
جو کچھ روایات سے معلوم ھوتا ہے وہ یہ ہے کہ بعض اعمال کے لئے قصد قربت کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر وہ عمل باطل ہے- لیکن بعض دوسرے اعمال کے صحیح ھونے کے لئے قصد قربت کی ضرورت نہیں ہے اور قصد قربت کے بغیر بھی وہ عمل صحیح ہے ، پہلی قسم کو امور عبادی یا تعبدی کہا جاتا ہے لیکن دوسری قسم کو توصلی امور کہتے ہیں-
[1] مصطفوى، حسن، التحقيق في كلمات القرآن الكريم، ج8، ص 12، ناشر: بنگاه ترجمه و نشر كتاب، تهران، 1360 ھ ش؛ طبرسى، ابو منصور احمد بن على ، الاحتجاج، ج 2، ص 395، نشر مرتضى مشهد مقدس، 1403 هجرى .
[2] توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج1، ص: 11مسأله 1.
[3] منسوب به امام صادق (ع)،مصباح الشريعة، مصطفوى، حسن، ص 236، ناشر: انجمن اسلامى حكمت و فلسفه ايران با اندکی تصرف.
[4] طالقانى، سيد محمود، پرتوى از قرآن، ج1، ص 307، پرتوى از قرآن، ناشر: شركت سهامى انتشار، تهران، 1362ھ ش
[5] طيب، سيد عبد الحسين منسوب به امام صادق (ع)،مصباح الشريعة، مصطفوى، حسن، ص 236، ناشر: انجمن اسلامى حكمت و فلسفه ايران با اندکی تصرف.، أطيب البيان في تفسير القرآن، ج3، ص 40 و 41. طيب، سيد عبد الحسين منسوب به امام صادق (ع)،مصباح الشريعة، مصطفوى، حسن، ص 236، ناشر: انجمن اسلامى حكمت و فلسفه ايران با اندکی تصرف.، أطيب البيان في تفسير القرآن، ج3، ص 40 و 41.