Please Wait
18375
لغت میں قناعت، ضرورت کی چیزوں کی کم مقدار پر اکتفا کرنے اور کسی شخص کو ملنے والی چیز پر راضی ہونے کو کہا جاتا ہے۔ احادیث میں بعض اوقات لفظ قناعت، مطلق رضا مندی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قناعت اور بخل کے درمیان فرق کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: قناعت اکثراً انسان کے انفرادی اخلاق میں آتا ہے اور یہ زندگی کے امکانات سے بہتر استفادہ، اور اخراجات میں زیادتی سے اجتناب کرنے اور خدا کی نعمتوں پر رضامندی سے متعلق ہے، اگرچہ کم ہی ہوں، جبکہ بخل اجتماعی اخلاق سے متعلق ہے، جب انسان کو دوسروں کی مدد کرنی چاہئیے اور معاشرہ کی ضروریات کے سلسلہ میں اپنے مالی اور اعتباری وسائل سے استفادہ کرنا چاہئیے، اور اس وقت بخل سے کام لے کر خرچ نہ کرے۔
قناعت کے موضوع پر بحث کرنے سے پہلے ہم اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں گے اور اس کے بخل سے فرق کے بارے میں تحقیق کریں گے اس کے بعد قناعت کی قدر و قیمت اور نتائج کے بارے میں بحث کریں گے:
قناعت کے معنی اور بخل سے اس کا فرق:
الف} قناعت کے معنی: لغت میں قناعت، ضرورت کی چیزوں کی کم مقدار پر اکتفا کرنے اور کسی شخص کو ملنے والی چیز پر راضی ہونے کو کہا جاتا ہے۔ احادیث میں بعض اوقات لفظ قناعت، مطلق رضا مندی کے لیے استعمال ہوا ہے[1]۔ امام علی{ع} اپنے ایک خط میں عثمان بن حنیف سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: " کیا مجھے اس پر اکتفا کرنا چاہئیے کہ لوگ مجھے امیرالمومنین کہیں اور میں لوگوں کی مشکلات میں ان کا ساتھ نہ دوں؟[2]"
اخلاقیات میں ، قناعت کا لفظ حرص کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ قناعت کی صفت انسان کے لیے اس امر کا سبب بنتی ہے کہ وہ ضرورت کی مقدار پر اکتفا کرے اور اس سے زیادہ کی طلب نہ کرے[3]۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ قناعت کرنے والا وہ ہے جو کم پر اکتفا کرتا ہے اور ناراض نہیں ہوتا ہے اور اپنے حصہ پر راضی ہوتا ہے۔
ب} قناعت کا بخل سے فرق:قناعت اور بخل کے درمیان فرق کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: قناعت اکثراً انسان کے انفرادی اخلاق میں آتا ہے اور یہ زندگی کے امکانات سے بہتر استفادہ، اور اخررجات میں زیادتی سے اجتناب کرنے اور خدا کی نعمتوں پر رضامندی سے متعلق ہے، اگرچہ کم ہی ہوں، جبکہ بخل اجتماعی اخلاق سے متعلق ہے، جب انسان کو دوسروں کی مدد کرنی چاہئیے اور معاشرہ کی ضروریات کے سلسلہ میں اپنے مالی اور اعتباری وسائل سے استفادہ کرنا چاہئیے، اور اس وقت بخل سے کام لے کر خرچ نہ کرے۔ قناعت، انسان کی ذہنیت، بزرگی، تقوی اور تحمل کی عالی ظرفی کی علامت ہے، جبکہ بخل ایک صفت رذیلہ ہے، جو انسان کے نفس، احساس کمتری اور خودخواہی کی علامت ہے۔
اس سلسلہ میں انسان چار حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
۱۔ خود بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی دیتے ہیں، انہیں اہل انفاق کہتے ہیں۔
۲۔ خود نہیں کھاتے ، لیکن دوسروں کو کھلاتے ہیں، انہیں اہل ایثار کہتے ہیں۔
۳۔ خود کھاتے ہیں، لیکن دوسروں کو نہیں کھلاتے ، انہیں بخیل کہا جاتا ہے۔
۴۔ خود نہیں کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی نہیں کھلاتے، وہ ذلیل اور کنجوس کہلاتے ہیں۔
انسان اپنے مال سے نہ اپنے لیے استفادہ کر سکتا ہے اور نہ دوسروں کو دے سکتا ہے، یہ انتہائی پست ، ذلیل ترین اور بدترین بخل ہے، کیونکہ بخیل انسان صرف دوسروں کو نہیں دیتا ہے لیکن اپنے مال سے اپنے لیے استفادہ کرتا ہے۔ سب سے بہتر حالت یہ ہے کہ انسان قناعت کی رعایت کرتے ہوئے خود بھی اپنے مال سے ضروری حد تک استفادہ کرے اور دوسروں کے لیے بھی انفاق کرے اور ان کو اپنے مال سے استفادہ کرنے میں شریک کرے اور معاشرہ کے محتاجوں کے ساتھ ہمدردی کرے۔
قناعت کرنے والے کا اہم کام قناعت کا انتخاب ہے۔ حضرت علی{ع} فرماتے ہیں: " جو شخص عقل سے کام لیتا ہے ، وہ قناعت کرتا ہے[4]۔" عقل، ، قناعت کو اس کے قابل قدر نتائج کی وجہ سے قبول کرتی ہے اور اسے انسان کے لیے فائدہ بخش جانتی ہے۔ اس کے من جملہ نتائج یہ ہیں: انسان کاغیر سے بے نیاز ہونا، کم یابیوں کو برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہونا، اگرچہ قناعت کرنے والا انسان بظاہر وسائل و امکانات سے کم استفادہ کرتا ہے، لیکن قناعت کے نتیجہ میں اس کا یہ کام عقل کے لیے قابل قبول ہوتا ہے۔ جس قدر انسان کا علم عالم اور نفس کے بارے میں زیادہ ہو یا انسانی مسائل کی طرف زیادہ گہرائی سے توجہ کرے، اسی قدر وہ انسانی صفتوں من جملہ قناعت کی صفت کو قبول کرنے میں زیادہ آمادگی رکھتا ہے۔
مذکورہ بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ، قناعت ، زہد و تقویٰ کی حالت اور ملکہ کا ایک جلوہ ہے، جو انسان کی معیشتی زندگی میں پیدا ہوتا ہے اور حقیقت میں زاہدانہ زندگی وہی قناعت کی زندگی ہے جو عیش و عشرت ، فضول خرچی اور بیش طلبی کی زندگی سے عاری ہوتی ہے۔
امیرالمومنین {ع} نے بھی قناعت کی، سادہ، زرق برق سے عاری اور ہلکی زندگی سے تعبیر کی ہے: " دنیا {کی چیزوں} پر کم اکتفا کرو تاکہ تمہاری دنیا سالم رہے، کیونکہ جو مومن کم پر اکتفا کرتا ہے، وہ قناعت کرتا ہے۔[5]"
کلی طور پر توجہ کرنی چاہئیے کہ قناعت ، بخل کرنا یا کم خرچ کرنا نہیں ہے، بلکہ قناعت یہ ہے کہ انسان اپنے امکانات سے صحیح اور مناسب استفادہ کرے اور اسلامی معاشرہ میں اسلام کی طرف سے فہمائش کی گئی کم خرچی پر عمل کرے اور فضول خرچی سے پرہیز کرے[6]۔
قناعت کے اثرات:
قناعت کے مثبت و منفی لحاظ سے کافی اثرات ہیں، ہم ذیل میں اس کے بعض مثبت و منفی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
مثبت اثرات:
الف} عزت اور سربلندی: قرآن مجید دو ٹوک الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ "عزت ، خدا ، رسول خدا{ص} اور مومنوں سے مخصوص ہے[7]۔" عزت اور سربلندی کی اس قدر اہمیت ہے کہ مومن انسان کو اجازت نہیں دی گئی ہے کہ کسی صورت میں دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل و خوار کرے۔
امام صادق{ع} فرماتے ہیں: " خداوندمتعال نے مومن کے تمام امور کو اسی کے حوالہ کیا ہے، لیکن اس کو اس کی اجازت نہیں دی ہے کہ خود کو ذلیل و خوار کرے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ خداوندمتعال نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے: " عزت، خدا، اس کے رسول{ص} اور مومنوں سے مخصوص ہے"؟ اس بنا پر مناسب ہے کہ مومنین ہمیشہ باعزت رہیں اور ذلت کے دباو میں نہ آئیں۔[8]"
پیغمبراسلام{ص} نے فرمایا ہے: " مناسب نہیں ہے کہ مومن خود کو ذلیل کر ڈالے۔[9]" بیشک انسان کی عزت و بزرگی کا جو چیز سبب بنتی ہے اور اسے ذلت و خواری سے نجات دلاتی ہے، وہ قناعت ہے۔ امیرالمومنین {ع} نے فرمایا ہے " قناعت کرنے والے شخص سے زیادہ کوئی عزیز تر نہیں ہے۔[10]" قناعت، عزت کا سبب ہے[11]۔ قناعت، عزت اور لوگوں سے بے نیاز ہونے کا سبب ہے[12]۔ قناعت ، سب سے پاِئیدار عزت ہے[13]۔
ب} لافانی خزانہ: رسول خدا{ص} نے فرمایا ہے: " قناعت ایک ایسا خزانہ ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے[14]۔ مزید فرمایا: " قناعت ایک ایسا مال ہے جو کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے[15]۔ حضرت علی{ع} اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: " قناعت کے علاوہ ، بے نیاز کرنے والا کوئی اور خزانہ نہیں ہے۔[16]"
ج} قناعت اور بے نیازی: رسول خدا{ص} نے فرمایا ہے: " ثروت کی فروانی، بے نیازی نہیں ہے، بلکہ بے نیازی صرف بے نیازی کے جذبہ میں پائی جاتی ہے۔[17]"
امام صادق{ع} نے فرمایا ہے: " جو شخص خدا کی طرف سے دئےگئے رزق پر قانع ہو، وہ لوگوں میں بے نیاز ترین شخص ہے۔[18]" حضرت {ع} نے مزید فرمایا ہے: " سب سے برتر بے نیازی ، قناعت ہے۔[19]" امیرالمومنین{ع} نے فرمایا ہے: " قناعت ممتاز ترین بے نیازی ہے۔[20]"
قانع نہ ہونے کے بُرے اثرات:
الف} ذلت و خواری: جو شخص خدا کی طرف سے اس کے لیے مقدر کیے ہوئے رزق پر قانع نہ ہو، وہ خوانخواہ لوگوں کے مال پر لالچ کی نظر رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ، ان کی طرف دست سوال دراز کرتا ہے اور یہ بذات خود ذلت و خواری کا سبب بن جاتا ہے۔
امام صادق{ع} نے فرمایا ہے: " کتنا برا ہے ایک مومن کے لیے کہ اس میں ایک چاہت ہو، جو اسے خوار و ذلیل کر کے رکھ دے۔[21]"
علامہ مجلسی، حدیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں: " جس چاہت کی مذمت کی گئی ہے اور انسان کے لیے ذلت و خواری کا سبب بن جاتی ہے، وہ لوگوں کی طرف ہاتھ پھیلانا ہے اور ان سے کوئی چیز مانگنا ہے، لیکن خداوندمتعال سے کوئی چیز مانگنا اور خداوندمتعال کی طرف توجہ کرنا ، نہ صرف ذلت کا سبب نہیں ہے بلکہ یہ سربلندی اور بذات خود عزت ہے[22]۔
ب} مسلسل پریشانی: طمع اور لالچ کے نتائج میں سے ایک مسلسل پریشانی ہے۔
امام صادق{ع} اس آیت : آپ کی نظریں کبھی ان مادی نعمتوں پر نہیں پڑنی چاہئیں جو ہم نے بعض گروہوں کو عطا کی ہیں، یہ دنیوی زندگی کے شگوفے ہیں، اور اس لیے ہے کہ ان سے ہم ان کا امتحان لے لیں اور آپ کے پروردگار کا رزق پائیدار ہے" کے بارے میں فرماتے ہیں: " پیغمبراکرم{ص} نے جب اس آیت کو سنا، تو سیدھے بیٹھ کر فرمایا: جو شخص نہ اس سے دل لگائے ، دنیا کی حسرت اسے سرنگوں کر کے رکھدے گی ، اور جو لوگوں کے مال و دولت سے اپنی نظر نہ اٹھائے اس کا غم و اندوہ طولانی ہوگا اور اس کا غصہ کبھی ختم نہیں ہوگا، اور جو شخص خدا کی نعمتوں کو صرف کھانے پینے تک محدود دیکھے، اس کی عمر کم ہوگی اور اس کا عذاب {درد و رنجش} اس کے نزدیک آئے گا۔[23]، [24]
اس بنا پر، انسان کو ہمیشہ اپنی زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئیے اور قناعت کو اپنا شیوہ علم بنانا چاہئیے، کہ اگر ایسا نہ کرے، تو اسے کبھی سعادت اور خوش بکتی نہیں ملے گی۔
[1]طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج 4، ص 384، کتابفروشی مرتضوی، تهران، 1375ھ ش.
[2] نهج البلاغة، ص 418، انتشارات هجرت، قم.
[3]ملاحظہ ہو: نراقى، ملا مهدى، جامع السعادات، ج 2، ص 104، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بيروت.
[4]آمدی، عبد الواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ص 391، انتشارات دفتر تبلیغات، قم، 1366 ھ.
[5]ایضآً ص 393.
[6]اقتباس از سایت http://amoozeh.ir/Archiveسے ماخوذ.
[7]منافقون، 8.
[8]کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 5، ص 63، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365ق.
[9]سید بن طاوس، الیقین، ص 336، مؤسسة دار الکتب، قم، 1413 ھ.
[10]غرر الحکم و درر الکلم، ص 392.
[11]ایضاً ص 391.
[12]ایضآً.
[13]ایضاً.
[14]فتال نیشابوری، محمد بن حسن، روضة الواعظین، ص 456، انتشارات رضی، قم.
[15]ایضآً.
[16]نهج البلاغة، ص 540، انتشارات دار الهجرة، قم.
[17]حرانی، حسن بن شعبه، تحف العقول، ص 57، انتشارات جامعۀ مدرسین، قم، 1404 ھ.
[18]کافی، ج 2، ص 139.
[19]طبرسى، ابوالفضل على بن حسن، مشكاة الأنوار، ص 130، كتابخانه حيدريه، نجف اشرف، 1385 ھ.
[20]غرر الحکم و درر الکلم، ص 392.
[21]کافی، ج 2، ص 139.
[22]مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 70، ص 171،ح 25، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ.
[23]ایضاً ج 67، ص 317، ح 25.
[24]یہ حصہ، کتاب "نقطہ ہای آغاز" کا خلاصہ ہے۔ملاحظہ ہو: مهدوی کنی، محمد رضا، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، تهران، 1376ھ ش.