Please Wait
8146
۱۔ قرآن نے ایک طرف متعدد جگهوں پر انسان کے بلند و بالا رتبه کا اعلان کیا هے لیکن دوسری طرف بهت سی آیتوں میں اس کی مذمت اور سرزنش بھی کی هے۔
۲۔ انسان کی حرکت، بےانتها بلندی و پستی کی سمت هوتی هے اور اس کی کوئی حد نهیں هوتی۔ اور یه انسان کی غیر معمولی صلاحیت کے سبب هے۔
۳۔ انسان دو پهلو مخلوق هے؛ ایک روحانی و ملکوتی اوردوسری حیوانی و نفسانی۔
۴۔ انسان دوسرے موجودات کے برخلاف اراده و اختیار سے بهره مند هے اور خود هموار کی هوئی زمین پر اپنے اختیار کے ساﭡﮭ زندگی کا راسته انتخاب کرتا هے۔
۵۔ وه لوگ خلیفۃ اللهی کے منصب تک پهنچتے هیں جو الهی هدایت کو اپنائیں اور سرکش آرزؤں اور حیوانی صفات کو کنٹرول کریں۔
قرآن کریم کا سرسری مطالعه کرکے هم اس نتیجه پر پهنچ سکتے هیں که انسان کے بارے میں دو طرح کی آیات ملتی هیں: پهلے دسته میں وه آیتیں هیں جو انسان کی عظمت بیان کرتی هیں اور اس کی شان کو بیان کرتی هیں۔ مثلا یه آیتیں:
۱۔ اور هم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی هے اور انهیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا هے ، انهیں پاکیزه رزق عطا کیا هے اور اپنی مخلوقات میں سے بهت سوں پر فضیلت دی هے ۔[1]
۲۔ اے رسول. اس وقت کو یاد کرو جب تمهارے پروردگار نے ملائکه سے کها که میں زمین میں اپنا خلیفه بنانے والا هوں اور انهوں نے کها که کیا اسے بنائے گاجو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب که هم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے هیں توارشاد هوا که میں وه جانتا هوں جو تم نهیں جانتے [2]۔
۳۔ ‹ بیشک هم نے امانت کو آسمانً زمین اور پهاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاهر کیا پس انسان نے اس بوجھ کو اٹھالیا که انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان هے ›۔ [3]
دوسرے دسته میں وه آیتیں هیں جن میں انسان کی مذمت کی گئی هے اور سخت لفظوں میں اس کی سرزنش کی گئی هے مثلا: ‹وه بالکل مایوس اور بے آس هوجاتا هے›[4]، ‹انسان سرکشی کرتا هے›[5]، ‹بیشک انسان بڑا ظالم اور انکار کرنے والا هے›[6]، ‹انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان هے›[7]، ‹همارا کھلا هوا دشمن هوگیا هے›[8]، ‹بے شک انسان خساره میں هے›[9] وغیره۔
اب ان آیات کو ملاحظه کرنے کے بعد یه سوال اٹھتا هے که آخر بات کیا هے؟ ظاهری اعتبار سے ان متضاد آیتوں کی مراد کیاهے ؟
اس سوال کے جواب کے لئے بهتر هے که خود قرآن سے مدد لیں؛ چونکه اس آسمانی کتاب کی بعض آیتیں بعض دوسری آیتوں کی تفسیر کرتی هیں۔
سوره بیّنۃ میں هم پڑھتے هیں:
‹بے شک اهل کتاب میں جن لوگوں نے کفر اختیار کیا هے اور دیگر مشرکین سب جهنمّ میں همیشه رهنے والے هیں اور یهی بدترین خلائق هیں اور بے شک جو لوگ ایمان لائے هیں اور انهوں نے نیک اعمال کانجام دئے هیں وه بهترین خلائق هیں›[10]۔
ایک سورے کی ان دو ملی هوئی آیتوں میں انسان کو بهترین اور بدترین دونوں کا عنوان دیا گیا هے اور یه اس کی بلندی اور پستی کی بےانتهائی کو بتاتا هے۔ کهنے کا مطلب یه هے که اگر ایمان اور عمل صالح والا هوگا تو الله کی بهترین مخلوق هوگا اور اگر کفر و گمراهی اور الحاد و انکار کی راه کو اپنائے گا تو اس طرح سقوط کرے گا که الله کی بدترین مخلوق هوجائے گا۔
حضرت علی علیه السلام ایک روایت میں فرماتے هیں: ‹الله نے کائنات کی خلقت کو تین طرح کا پیدا کیا: فرشتے، حیوان اور انسان؛ فرشتوں کے پاس عقل هے لیکن شهوت وغضب نهیں هے، حیوانات میں شهوت و غضب هے لیکن عقل نهیں هے، لیکن انسان کے پاس شهوت و غضب بھی هے اور عقل بھی ان میں سے اگر عقل غالب آگئی تو وه فرشتوں سے بھی برتر هے اور اگر شهوت و غضب غالب آگئے تو حیوانوں سے بھی پست تر هے›[11]۔
اس نورانی روایت سے نتیجه نکالا جاسکتا هے که جس طرح انسان دوبعدی (روحانی و نفسانی) مخلوق هے اسی طرح اس کے رجحانات اور خواهشات بھی دو طرح کے هیں (روحانی رجحانات اور نفسانی رجحانات) اور وه الله کی طرف سے عطا کئے گئے اراده و اختیار کی بنیاد پر ان میں سے کسی کا بھی انتخاب کر انسانی معراج پر پهنچ سکتا هے یا پھر اتنا پست بھی هوسکتا هے که قرآن کے بقول حیوان سے بھی گر جائے۔[12]
لهٰذا قرآن کی آیتیں اس حقیقت سے پرده اٹھاتی هیں که تمام انسان صلاحیت و استعداد کے مرحلے تک اس کی اهلیت رکھتے هیں که بهترین محترم ترین بلکه فرشتوں سے بھی زیاده برتر هوجائیں اوروه ان بالقوۃ صلاحیتوں کو فعال کرکے خلیفۃ الله کے درجه تک پهنچ سکتے هیں؛ لیکن اگر الله کی عطا کرده اس استعداد سے اسفتاده نه کریں تو الهی مذمت کے اهل قرار پائیں گے جس کا مختصر تذکره هم نے کیا هے۔
مزید معلومات کے لئے رجوع کریں:
المیزان (ترجمه فارسی)، ج16، ص524۔527؛ تفسیر نمونه، ج8، ص242، ج17، ص451،457